اقوامِ متحدہ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق اگست 2021 میں طالبان کے حکومت میں آنے کے بعد ملک میں خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد میں بتدریج اضافہ ہوا ہے۔ ڈی گارڈین رپورٹ کے مطابق حقوق کی پامالیوں کی وجہ سے افغانستان میں خودکشی کرنے والوں کی اکثریت خواتین کی ہے۔ امریکی انسٹیٹیوٹ آف پیس نے بتایا کہ افغانستان میں ہونے والی مجموعی خودکشیوں میں خواتین کی شرح تقریباً 80 فیصد ہے۔
ایک اور کتاب منظر عام پر آگئی۔
ٹی ٹی پی افغان حکومت میں ایک بھی خاتون وزیر نہیں ، جولائی 2023 میں افغانستان میں عورتوں کے 60 ہزار سے زائد کاروباروں کو بند کردیا گیا۔ ایک اندازے کےمطابق طالبان حکومت کے اقتدار کے بعد 2025 تک 51,000 زچگی اموات کا امکان ہو سکتا ہے۔ افغان پارلیمنٹ کی سابق رکن فوزیہ کوفی نے افغان خواتین کی محرومیوں کے خلاف عالمی سطح پر آواز اٹھائی۔
23 نومبر کو ماسکو اجلاس میں فوزیہ کوفی نے طالبان حکومت کے احکام کی نشاندہی کی جنہوں نے افغان خواتین کو انکے جائز حقوق سے محروم کر دیا۔ افغان طالبان حکومت نے 80 حکم نامے جاری کیے ہیں جن کا مقصد معاشرے سے خواتین کو مٹا دینا ہے۔ طالبان حکومت نے افغان خواتین کی شناخت کو مسخ کر دیا ہے۔
طالبان کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے مسز کوفی نے کہا کہ طالبان کے بس میں ہو تو خواتین کا سانس لینا بھی محال کر دیں۔ اجلاس میں مسز کوفی نے طالبان گروپ کے دورِ حکومت کے دوران افغان خواتین کی دو سالہ سول جدوجہد کا بھی ذکر کیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ طالبان گروپ کے خلاف کھڑا ہونا اس ملک کے حالات میں تبدیلی کا باعث بنے گا۔
فوزیہ کوفی نے اجلاس میں پیشکش کی کہ خواتین کے حقوق کی بحالی اور طالبان حکومت کے خلاف ایک تحریک چلائی جانی چاہیے۔ طالبان کو مخاطب کرتے ہوئے مسز کوفی نے کہا کہ افغانستان کی تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ کوئی بھی گروپ دباؤ کے ذریعے افغانستان پر تنہا حکومت نہیں کر سکتا۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ افغان خواتین پر تشدد اور ان کے حقوق پر طالبان کا کریک ڈاؤن آخر کب تک جاری رہے گا؟