
پاکستان کے خلاف بھارتی جارحیت کے بعد خطے میں ایک اور محاذ پر بھارت کو بڑا سفارتی دھچکا اس وقت لگا جب چین نے اروناچل پردیش پر اپنا دو ٹوک مؤقف اختیار کرتے ہوئے اس علاقے کو نیا نام ”زانگنان“ دے کر باضابطہ طور پر اپنا حصہ قرار دے دیا۔چین کی سول افیئرز کی وزارت کی جانب سے اروناچل پردیش کے تقریباً 27 مقامات کے نئے نام جاری کئے گئے ہیں، جن میں 15 پہاڑ، پانچ رہائشی علاقے، چار درے، دو دریا اور ایک جھیل شامل ہے۔
LOADING...
چینی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ زانگنان تاریخی، جغرافیائی اور انتظامی اعتبار سے چین کا حصہ ہے اور اس کے مختلف مقامات کو چینی نام دینا چین کی خودمختاری کا مظہر ہے۔بیان میں مزید کہا گیا کہ یہ اقدام چین کے خودمختار انتظامی دائرہ اختیار کے تحت کیا گیا ہے اور اس کا مقصد خطے میں چین کی تاریخی و ثقافتی شناخت کو اجاگر کرنا ہے۔بیجنگ نے اپنے حالیہ بیان میں کہا ہے کہ ’زانگنان چین کا علاقہ ہے‘۔ چین ان علاقوں کو اپنے جنوبی خودمختار تبت کے علاقے کا حصہ قرار دیتا ہے، جسے بیجنگ ”شی زانگ“ کے نام سے پکارتا ہے۔
چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان لن جیان نے بیجنگ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’چینی حکومت نے زانگنان میں کچھ مقامات کے ناموں کو باقاعدہ شکل دی ہے، جو مکمل طور پر چین کی خودمختاری کے دائرے میں آتا ہے۔‘یہ بیان نئی دہلی کی جانب سے بدھ کے روز بھارت میں چینی سرکاری خبررساں ایجنسی ”شنہوا“ اور روزنامہ ”گلوبل ٹائمز“ کے ایکس اکاؤنٹس کو بلاک کرنے کے اقدام کے بعد آیا ہے۔مئی 2020 سے، دونوں ایشیائی طاقتیں 3,500 کلومیٹر (2,174 میل) طویل لائن آف ایکچوئل کنٹرول (LAC) — جو لداخ میں واقع متنازع جموں و کشمیر کے علاقے میں ان کی غیر رسمی سرحد ہے — پر کشیدگی میں الجھی ہوئی ہیں۔
اسی سال جولائی میں، کم از کم 24 فوجی مارے گئے تھے، جن میں 20 بھارتی اور 4 چینی شامل تھے۔ اس کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان ایک طویل اور شدید تناؤ پیدا ہوا، جس کے دوران دونوں جانب سے ہزاروں فوجی اور بھاری ہتھیار تعینات کیے گئے۔تاہم گزشتہ سال بھارت اور چین کے تعلقات میں کچھ بہتری دیکھنے میں آئی، اور اس کے بعد سے دونوں ممالک تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے سرگرم ہیں۔چینی مؤقف نے بھارت کے اُس دعوے کو مسترد کر دیا ہے جس کے مطابق بھارت اروناچل پردیش کو اپنی ریاست قرار دیتا ہے جبکہ چین اسے جنوبی تبت کا علاقہ مانتا ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان اس سرحدی تنازع پر پہلے ہی شدید کشیدگی پائی جاتی ہے۔دفاعی ماہرین کے مطابق پاکستان کی جانب سے بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب ملنے کے بعد چین کی تازہ پوزیشن نے مودی سرکار کے لیے سفارتی محاذ پر مشکلات مزید بڑھا دی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مودی حکومت نے خطے کے ہر ہمسایہ ملک سے تنازع کھڑا کرکے ثابت کیا ہے کہ بھارتی قیادت جنوبی ایشیا کے امن کے لیے خطرہ بن چکی ہے۔چین کے اس اعلان کے بعد خطے میں نئی سفارتی و جغرافیائی کشیدگی کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے، جو مستقبل میں بھارت کے لیے مزید چیلنجز پیدا کر سکتی ہے۔