عید پر خوشی کا موقع تھا لیکن سب کے چہرے لٹکے ہوئے،مرجھائے ہوئے،ماتھوں پر پریشانی کے آثار دیکھ کر دریافت کیا تو بولے کہ’ہم لٹ گئے،برباد ہوگئے،سالوں سے ہمارے پاس موجود اراضی کو کسی اور کے حوالے کردیا گیاہے،اب ہم کہاں جائیں گے؟ہمارے پاس لڑنے کے سوا کوئی چارہ نہیں‘ پوچھا وہ کون ہے جو یہ ظلم کرنے جارہا ہے؟کہتے ہیں کہ حکومت نے ہماری زمینیں طاقتور ادارے کو لیز پر دے دی ہیں ،اب یہ ادارہ فصلیں اگائے گا۔
کہانی کچھ یوں ہے کہ ضلع خانیوال کو ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ اور ضلع جھنگ سے ملانے والے علاقے کا نام جڑالہ ہے. یہاں کا زمینی پانی کڑوا ہے۔ جو نہری پانی آتا ہے، وہ فصلوں کو سیراب نہیں کرپاتا۔ یہاں ہر طبقہ فکر کے لوگ رہتے ہیں۔ زیادہ تر لوگوں کا دارومدار زراعت پر ہے۔ یہاں کی زیاد ہ آبادی مختلف چکوک پر مشتمل ہے، چک نمبر 13 ڈی فارم، چک نمبر 4 ڈی فارم اور 13 لاٹ کی اراضی محکمہ لائیو اسٹاک کی زیر نگرانی ہے۔
یہ اراضی پاکستان بننے سے پہلے لالہ خوشی رام اور کالی داس کی ملکیت تھی۔ قیام پاکستان کے بعد یہ دونوں بھارت چلے گئے۔ اس وقت اس اراضی کو محکمہ مال کے سپرد کردیا گیا۔ محکمہ مال نے یہ اراضی کاشت کاروں کو اس شرط پر دی کہ وہ فصل کاشت کریں۔ فصل کے پانچ حصے کیے جائیں گے، جس میں تین حصے کاشتکار کے، جبکہ دو حصے محکمہ مال کے ہوں گے۔ مگر یہ سلسلہ زیادہ دیر نہ چل سکا۔
یہ اراضی محکمہ زراعت اور محکمہ سیڈ کارپوریشن سے ہوتی ہوئی محکمہ لائیو اسٹاک کے پاس چلی گئی۔ 1988 میں پہلی بار محکمہ لائیو اسٹاک نے اس اراضی کو ٹھیکہ پر دیا۔ شروع میں اس کا پٹہ اول 300، دوم 150 اور سوم 75 فی ایکڑ مقرر کیا گیا۔ محکمہ نے اس وقت یہ قانون لاگو کیا کہ جس کے پاس دو گائے اور ایک بھیڑ ہوگی اس پٹے دار کو بارہ ایکڑ زمین میں چار ایکڑ چارہ لگانے کی اجازت ہوگی اور اس چار ایکڑ کا ٹھیکہ وصول نہیں کیا جائے گا۔ ہر تین سال بعد ٹھیکہ بڑھایا جاتا رہا۔
ان چکوک میں محکمہ لائیو اسٹاک کی زیر نگرانی 2810 ایکڑ اراضی ہے، جس میں 2570 ایکڑ اراضی پٹہ داروں کے پاس جبکہ 240 ایکڑ اسکولوں، قبرستانوں اور رہائش کے لیے دے رکھی ہے۔ بعض ایسے لوگوں کے پاس پٹہ ہے، جن کے پاس دوسرے چکوک میں اپنا ملکیتی رقبہ موجود ہے، جو کہ غیر قانونی طریقہ ہے۔ جس کی تصدیق لائیو اسٹاک حکام نے بھی کی۔ اس کرپشن کا علم محکمہ لائیو اسٹاک عملے کو ہے۔ لیکن محکمے کے لوگ وڈیروں اور جاگیرداروں کے چہیتے لوگوں کو سپورٹ کرتے ہیں۔
جن غریبوں کا حق بنتا ہے، ان سے ناانصافی کی جارہی ہے۔ اسکولوں، قبرستانوں، یہاں تک کہ محکمہ کے لوگوں نے اپنے دفاتر پر بھی قبضہ کروا رکھا ہے۔ مگر ان لوگوں کے خلاف کارروائی نہیں کی جاتی۔ نیب کے پاس بھی درخواستیں جمع کروائی گئی ہیں۔ سرکاری حکام، تحصیل اور ضلعی انتظامیہ دورے کرنے سے آگے جانے کو تیار نہیں۔یہاں کی اراضی طاقتور ادارے کو دینے کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ ان چکوک کے ارد گرد کی اراضی 60 سے 70 ہزار روپے فی ایکڑ ٹھیکہ پر مل رہی ہے۔
مگر محکمہ لائیو اسٹاک ابھی تک ان چکوک میں فی ایکڑ زمین اول 2300، دوم 1500، سوم 1000 تک وصول کررہا ہے، جس سے حکومت کو کروڑوں روپے کا نقصاں پہنچ رہا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ وزیراعظم شہباز شریف ،وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز ان کی بات سنیں گے اور اس پر عمل بھی کریں گے،وفاق اور پنجاب کی حکومتیں کسانوں کیلئے پیکجز کیلئے اعلانات بھی کررہی ہیں ۔ عوام کو رہنے کو چھت، کھانے کو روٹی، کمانے کو باعزت روزگار اور پہننے کو لباس دینے کی بھی بات کرتی ہیں۔
لائیو سٹاک اراضی کسی کو دینا ضروری ہے تو یہاں کے رہنے والوں کو دی جائے، برسوں سے رہنے والوں کو بے گھر کرنے کے بجائے مالکانہ حقوق دئیے جائیں،ان کو بے آسرا اور بے گھر نہ کریں،ان کے چہروں پر’بغاوت‘ میں نے جو پڑھا ہے وہ حقیقیت بن گئی تو خدشہ ہے کہ اس کے نتائج بہت بھیانک نکلیں گے۔