متحدہ عرب امارات میں حمل ضائع کرنے سے متعلق ایک قانونی قدم اٹھایا گیا ہے، جس کے تحت اب زیادتی کا شکار خواتین اپنی مرضی سے اسقاط حمل کے حوالے سے فیصلہ کر سکیں گی۔تفصیلات کے مطابق جنسی زیادتی کے کیسز میں اب اسقاط حمل کرایا جا سکے گا، جبکہ اس حوالے سے تین اضافی نقطہ سامنے رکھے گئے ہیں، جس میں مشروط طور پر اسقاط حمل کی اجازت دی گئی ہے۔
خلیج ٹائمز کے مطابق کیبنٹ میں قرار داد پیش کی گئی تھی، جس میں بتایا گیا ہے کہ لائسنس یافتہ فزیشن ہی مشروط اسقاط حمل کو انجام دے گا۔جبکہ زیادتی کے علاوہ جوڑے کی درخواست پر بھی اسقاط حمل کیا جا سکے گا تاہم اس پر منتخب کمیٹی کی جانب سے اجازت درکار ہوگی۔ واضح رہے اس اجازت سے متعلق تفصیل قرار داد میں موجود نہیں ہے۔
جبکہ اسقاط حمل کو 5 کیسز کے ذریعے کیا جا سکے گا، اس سے قبل محض خاتون کی جان کو بچانے کے لیے ہی اسقاط حمل کیا جاتا تھا۔خلیج ٹائمز کے مطابق ایمرجنسی کیسز میں والدین کی رضامندی کی ضرورت نہیں ہوگی، اس سے قبل وزیر صحت کی جانب سے بتانا تھا کہ ہر صحت اتھارٹی کی ایک، ایک کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔
یہ کمیٹی 3 ممبران پر مشتمل ہوگی، جن میں گائینی کالوجی، اوبسٹیٹرکس اور نفسیات کے ڈاکٹرز شامل ہوں گے، جبکہ پبلک پراسیکیوشن کا ممبر بھی شامل ہوگا۔قانونی ماہرین کے مطابق یہ فیصلہ خواتین کی صحت کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے، جبکہ غیر قانونی طور پر کیے جانے والے اسقاط حمل کو روکنے کے لیے بھی کیا گیا ہے۔
حبیب الملا کے سربراہ ڈاکٹر حبیب الملا کہتےہیں کہ اسقاط حمل کی 2 ابتدائی شرطیںں یہ بھی ہیں کہ زیادتی کا شکار کے حوالے سے پبلک پراسیکیوشن کی جانب سے رپورٹ سامنے آئی ہو، جس کی بنا پر اسقاط حمل کیا جا سکے۔