انسانی تاریخ کی ایسی قاتل ایجادات ہیں جنہوں نے اپنے ہی موجد کی جان لی

There are some killer inventions in human history that claimed the life of their inventors

ٹائی ٹینک کے ڈوبنے کی کہانی آپ میں سے شاید ہی کوئی ہو جو نہ جانتا ہو، یہ عظیم الشان  بحری جہاز 1912ء میں اپنے پہلے ہی سفر میں ڈوب گیا تھا اور اس حادثہ میں ڈیڑھ ہزار سے زائد لوگ مارے گئے تھے۔ حادثہ میں مارے جانے والے لوگوں میں اس جہاز کے ڈیزائنر تھامس اینڈریوز Thomas Andrews بھی شامل تھے جو اپنی ہی ایجاد کے ہاتھوں مارے گئے تھے، لیکن یہ واحد انسان نہیں ہیں جو اپنی ایجاد کے ہاتھوں مارے گئے ہوں۔
 

خلائی سیاحت کی پہلی پرواز مکمل، 6 افراد خلا کو چھو کر واپس آگئے

انسانی تاریخ میں ایسی بہت سی قاتل ایجادات ہیں جہنوں نے اپنے ہی موجد کی جان لی۔

Franz Reichelt

 آسٹرین نژاد فرانسیسی موجد فرنز ریچلٹ کے بارے میں، دوستو بیسوی صدی کے شروع میں ہوائی جہاز کے سفر اور اس کے حادثات کی خبریں آئے روز اخبارات میں شائع ہوتی رہتی تھیں۔ رچلٹ ہوائی جہاز کی اس ابتدائی ترقی سے بہت متاثر تھے، لیکن وہ حادثات کا شکار ہونے والے ہوائی جہاز کے پائلٹ کی  جان بچانے میں مدد کرنا چاہتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ کوئی ایسا طریقہ ہو جس سے اگر جہاز کو کوئی حادثہ پیش آ بھی جائے تو بھی پائلٹ کی جان بچائی جا سکے۔

فرنز ریچلٹ ایک درزی تھے۔ اس لیے انہوں نے سوچا کیوں نہ کوئی ایسا پیراشوٹ سوٹ تیار کیا جائے جو پائلٹ فلائٹ کے دوران پہن لے۔ اور اگر کوئی حادثہ پیش آ بھی جائے تو بھی پائلٹ جہاز سے چھلانگ لگا کے اپنی جان بچا لے۔ کیونکہ اس نے تو وہ پراشوٹ سوٹ پہنا ہوگا، اس لیے اس کی جان بچ جائے گی۔
 اب ہوا یوں کہ اپنے اس خواب کو حقیقت بنانے کے لیے ریچلٹ نے پراشوٹ سوٹ کی سلائی شروع کر دی۔ 

1910 میں وہ پیراشوٹ سوٹ تیار کرنے کے ابتدائی مراحل میں تھے۔ انہوں نے ایک بار ایک سوٹ تیار کر کے ایک ڈمی پر ایکسپیرمنٹ بھی کیا لیکن کامیابی نہیں ملی اور وہ ڈمی زمین پر جا گِری۔ پھر ایک بار انہوں نے اپنے تیار کردہ پیراشوٹ سوٹ خود پہن کر تھوڑی اونچائی سے چھلانگ لگائی لیکن یہ تجربہ بھی بےسود رہا اور الٹا ریچلٹ کی اپنی ٹانگ ٹوٹ گئی۔

لیکن پھر بھی وہ ناامید نہیں ہوئے۔ انھوں نے کہا میں نے پچیس میٹر سے چھلانگ لگائی ہے اس لیے ناکام ہوا ہوں اگر سو میٹر یا کم از کم پچاس میٹر کی بلندی سے یہ تجربہ کرتا تو نتائج مختلف ہوتے۔  انھوں نے اپنے بنائے گئے اس سوٹ کو مزید بہتر سے بہترین بنانے میں دن رات ایک کر دیے۔

ایک بار ریچلٹ نے فرانسسی اخبار کو انٹر ویو دیتے ہوا کہا۔ میرا تیار کردہ یہ پیراشوٹ سوٹ بنیادی طور پر، آدھا واٹر پروف کپڑے اور آدھا ریشم سے بنایا گیا ہے، اور اس میں rods اور بیلٹز اس طرح سے لگائی گئیں ہیں کہ اسے چھلانگ لگاتے وقت باآسانی کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔

اچھا پھر ہوا یوں کے Aéro-Club de France جو فرانس میں فضائی نقل و حرکت کی حوصلہ افضائی کے لیے بنائی گئی ایک سوسائٹی تھی اس نے ایک دن عام لوگوں کے لیے ایک دلچسپ انعام کی پیش کش کر دی۔ اس سوسائٹی نے اعلان کیا کہ جو کوئی بھی ہوا بازوں کے لیے    25 کلو گرام سے کم وزن کاحفاظتی پیراشوٹ بنائے گا تو اسے دس ہزار فرانک انعام دیا جائے گا۔

اس انعام کی پیشکش کے بعد ریچلٹ اور زیادہ ایکساٹیڈ ہو گئے۔ اب وہ اپنے بنائے گئے پیراشوٹ کو کافی اونچائی سے ٹیسٹ کرنا چاہتے تھے۔ کیونکہ انھیں یقین تھا کہ ان کا یہ پیراشوٹ پرواز کے دوران مددگار رہے گا۔ اور تجربہ ضرور کامیاب ہوگا۔ انھوں نے اپنے پہلے تجربہ کے لیے ایفل ٹاور کا انتخاب کیا۔ اس کے لیے ریچلٹ نے پیرس پولیس سے لابنگ شروع کر دی کہ اسے ایفل ٹاور سے چھلانگ لگا کے اپنے بنائے گئے پیراشوٹ کو ٹیسٹ کرنے دیا جائے۔ وہ بار بار یہ درخواست کرتے رہےاور پھر ایک سال بعد پیرس کی انتظامیہ نے انھیں اجازت دے دی۔

پھر چار فروری 1912  کی سرد صبح، فرانز ریچلٹ صبح 7 بجے ایفل ٹاور پر پہنچے۔ لیکن ریچلٹ اپنے ساتھ کوئی ڈمی نہیں لائے تھے۔ کیونکہ وہ خود وہ سوٹ پہن کرنا چھلانگ لگانا چاہتے تھے۔ وہاں موجود اس کے دوستوں نے انھیں بہت سمجھانے کی کوشش کی کہ ایسا نہ کریں۔  

آپ نے تجربہ کرنا ہی ہے تو کسی ڈمی پہ کر لیں خود اتنی انچائی سے چھلانگ نہ لگائیں لیکن ریچلٹ نے کسی کہ نہ سنی، وہ بہت پر امید تھے کہ ان کا یہ پیراشوٹ صحیح کام کرے گا۔ پیراشوٹ سوٹ تو پہلے ہی انھوں نے پہن رکھا تھا اب اگلا مرحلہ ایفل ٹاور پر چڑھنا تھا، تو اس کے لیے انھوں نے ٹاور کے پہلے پلیٹ فارم کا انتخاب کیا جو زمین سے تقریباً دو سو فٹ بلند ہے۔

پیرس کی ٹھنڈی صبح آٹھ بج کہ بائیس منٹ پرریچلٹ ایفل ٹاور کے پہلے پلیٹ فارم کے کنارے کے ساتھ ایک چھوٹی سی میز پرکھڑے تھے۔ انھوں نے اخبار سے تھوڑا سا کاغذ پھاڑا اور اس سے ہوا کی سمت کا اندازہ کیا۔ پھر نیچے برفیلی زمین کی طرف دیکھا۔ اور چھلانگ لگا دی۔

 چھلانگ لگاتے ہی پیراشوٹ ان کے گرد لپیٹ گیا، اور وہ جمی ہوئی گھاس پر جا گرے۔ لوگ بھاگتےہوئے قریب پہنچے، ان کی ناک اور منہ سے خون بہہ رہا تھا، وہ برفیلی زمین میں چھ انچ دھنس چکے تھے۔ لوگوں نے ان کی مدد کرنا چاہی لیکن وہ پہلے ہی اپنی ایجاد کے ہاتھوں فنا ہو چکے تھے۔ ان کا بنایا گیا یہ پیراشوٹ سوٹ ہی قاتل نکلا۔

 ترکی کا مشہور شہر کیپاڈوکیا cappadocia ہے۔ اس شہر کی فضاء میں یہ بڑے بڑے غبارے اڑتے نظر آ رہے ہیں۔  جب بھی کوئی ترکی جاتا ہے وہ اس شہر کا وزٹ ضرور کرتا ہے تو  انہی غباروں میں  بیٹھ کر ترکی کے آسمان میں پرواز کر سکے۔ لیکن کیا آپ کو معلوم ہے دنیا کے پہلے ہاٹ ائیر بیلون کو ایجاد کرنے والے پیلاترے دی روزیئرPilâtre de Rozier اپنی ہی ایجاد کی وجہ سے مارے گئے تھے۔ مائے کیوریس فیلوز قصہ کچھ یوں ہے کہ  فرانسیسی کیمیا دان، جو ہوابازی کے پہلے چند علمبرداروں میں سے ایک تھے

انہوں نے 1785 میں اپنے ہی ڈیزائن کردہ غبارے کی مدد سے انگلش چینل جو بحر اوقیانوس کا حصہ ہے  اور جنوبی انگلینڈ کو شمالی فرانس سے الگ کرتی ہے اسےعبور کرنا چاہا۔ انہوں نے اس غبارے میں ہائیڈروجن گیس اور گرم ہوا دونوں کا استعمال کیا تھا۔ روزئیر اپنے ایک ساتھی کے ساتھ اس غبارے میں سوار ہو گئے لیکن بدقسمتی سے ابھی وہ بمشکل پانچ کلومیٹر کا ہی فاصلہ طہ کر پائے ہوں گئے کہ ان کے غبارے میں آگ لگ گئی جس کی وجہ سے چار جولائی 1934 کو ان کی موت ہوگئی۔



اشتہار


اشتہار