دنیا کے غریب ترین صدر 89 برس کی عمر میں چل بسے

The world's poorest president dies at 89
 یوروگوئے کے سابق صدر خوسے پے پے موہیکا، جو دنیا بھر میں اپنی سادگی اور عوام دوستی کی بنا پر “دنیا کے غریب ترین صدر” کے طور پر جانے جاتے تھے، 89 برس کی عمر میں وفات پا گئے۔ان کے انتقال کی اطلاع موجودہ صدر یاماندو اورسی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم “ایکس” پر دی۔ انہوں نے اپنے پیغام میں لکھا: “ہم آپ کے احسان مند ہیں، آپ نے جو کچھ ہمیں دیا اور اپنی قوم سے جو بے لوث محبت کی، وہ ناقابلِ فراموش ہے۔”

LOADING...

خوسے موہیکا کافی عرصے سے غذائی نالی کے کینسر میں مبتلا تھے، تاہم ان کی موت کی فوری وجہ کا اعلان نہیں کیا گیا۔موہیکا نے 2010 سے 2015 تک یوروگوئے کی قیادت کی۔ ان کا سادہ طرزِ زندگی، سرمایہ دارانہ نظام پر تنقید اور سماجی اصلاحات کا جذبہ عالمی سطح پر ان کی پہچان بن گیا۔ وہ اپنی تنخواہ کا بڑا حصہ عطیہ کر دیتے تھے اور ایک معمولی سے فارم ہاؤس میں مقیم رہے۔ان کے دورِ صدارت میں یوروگوئے پہلا ملک بنا جس نے تفریحی استعمال کے لیے بھنگ کو قانونی حیثیت دی، جس پر عالمی سطح پر بحث بھی ہوئی اور پذیرائی بھی۔اگرچہ یوروگوئے ایک چھوٹا ملک ہے، تاہم موہیکا کی شخصیت نے بین الاقوامی سطح پر گہرا اثر چھوڑا۔ ان کے کئی اقدامات کو سراہا گیا، مگر بعض پالیسیوں پر ملکی سطح پر تنقید کا سامنا بھی رہا۔

موہیکا کا تعلق مونٹی ویڈیو کے متوسط طبقے سے تھا۔ وہ سیاست، مطالعہ اور زمین سے جڑی زندگی کو اپنی والدہ کی تربیت کا نتیجہ قرار دیتے تھے۔انہوں نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز نیشنل پارٹی سے کیا، جو بعد ازاں ان کی حکومت کی مخالف جماعت بن گئی۔ 1960 کی دہائی میں انہوں نے بائیں بازو کی مسلح تنظیم تُوپاماروس نیشنل لبریشن موومنٹ کی بنیاد رکھی، جو حکومت کے خلاف مختلف کارروائیوں میں ملوث رہی۔اپنی جدوجہد کے دوران موہیکا کو چار مرتبہ قید و بند کا سامنا کرنا پڑا۔ 1970 میں ایک حملے کے دوران انہیں چھ گولیاں لگیں اور وہ موت کے قریب پہنچ گئے تھے، تاہم وہ زندہ بچ نکلے۔





اشتہار


اشتہار