پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی نے ملک بھر میں انٹرنیٹ کی بندش اور کم اسپیڈ کا اعتراف کرلیا ۔لاہور ہائیکورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ کے مطابق چار وجوہات کی بنا پر ملک بھر میں انٹرنیٹ کی بندش اور اسپیڈ کم ہوئی. وکیل پی ٹی اے نے بتایا کہ رپورٹ میں انٹرنیٹ کی سپیڈ کم ہونے کی چار وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ زیر سمندر سمبیرین کیبل کٹ جانے سے انٹرنیٹ کی سپیڈ متاثر ہوئی۔ دوسری وجہ 31جولائی کی دوپہر کو ایک انٹرنیٹ کمپنی کی غلطی کی وجہ سے سپیڈ کم ہوئی تاہم متعلقہ انٹرنیٹ کمپنی کے خلاف سخت ایکشن لیا گیا اور ملازمین معطل کیے۔
LOADING...
تیسری وجہ 15اگست کو انڈین نیشنل ڈے پر سائبر اٹیک ہوا جس سے انٹرنیٹ سلو ہوا پی ٹی اے نے اعتراف کیا ہے کہ وی پی این کے بے تحاشہ استعمال کی وجہ سے بھی انٹرنیٹ کی سپیڈ متاثر ہوئی ہے۔۔اب پاکستان کا انٹرنیٹ بدستور سست روی کا شکار ہے۔ حالیہ مہینوں میں صارفین کو سست رفتار، واٹس ایپ پر میڈیا ڈاؤن لوڈ کرنے میں دشواری، اور وقفے وقفے سے رابطے کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے -اب جیسا کہ انٹرنیٹ کی سست روی کو برقرار رکھنے کا جواز وی پی این استعمال یا ناقص سب میرین کیبلز کو قرار دیا جارہا ہے۔ یعنی انٹرینٹ کی سست روی پر وضاحتیں دی جارہی ہیں ۔
اب فائر وال پر مختلف باتیں ہورہی ہیں جبکہ انٹرنیٹ سوسائٹی یہ وضاحت دے رہی ہے کہ قومی سطح پر مواد کی فلٹرنگ میں عام طور پر کسی ایک فائر وال سسٹم پر انحصار کرنے کے بجائے مواد کو روکنے کیلئے متبادل تکنیک بھی استعمال کی جاسکتی ہیں ۔جن میں ڈی پی آئی ، ڈی این ایس فلٹرنگ، یو آر ایل فلٹرنگ اور آئی پی فلٹرنگ کرنے والی فائر والز شامل ہو سکتی ہیں۔ ہر تکنیک ایک خاص مقصد کی تکمیل کرتی ہے، جیسا کہ مخصوص یو آر ایلز کو مسدود کرنا، مخصوص ڈومینز کے ڈی این ایس ریزولوشن کو روکنا، یا ڈیٹا پیکٹ کے مواد کا معائنہ کرنا تاکہ ناپسندیدہ مواد کی شناخت اور اسے فلٹر کیا جا سکے۔ اب آئی ٹی ماہرین کے بقول یہ معلوم نہیں ہے کہ پاکستان کیا نافذ کر رہا ہے ۔
ایمنسٹی ٹیک کی ترجمان حاجرہ مریم کے بقول یہ سسٹم مختلف شکلیں اختیار کرتے ہیں، لیکن عام طور پر اس ملک میں ٹیلی کام آپریٹرز شامل ہوتے ہیں جو انٹرنیٹ اور ٹیلی فون مانیٹرنگ ٹیکنالوجی انسٹال کرتے ہیں، جیسا کہ کمیونیکیشن ریگولیٹرز یا سیکیورٹی ایجنسیوں کی درخواست ہے۔کچھ حکومتیں کچھ ویب سائٹس آن لائن مواد کو بلاک کرنے کے لیے قومی فائر والز اور سنسرشپ ٹیکنالوجی کا استعمال کرتی ہیں تاکہ یہ کنٹرول کیا جا سکے کہ لوگ انٹرنیٹ پر کیا دیکھ اور کہہ سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر الجزائر، چین، ایران، روس اور ویتنام جیسے ممالک نے حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں معلومات تک رسائی کو محدود کرنے کے لیے ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت انسانی حقوق کی تنظیموں کی ویب سائٹس کو بلاک کر دیا ہے۔
متحدہ عرب امارات میں مواد کی فلٹرنگ کو چین کے علاوہ دنیا میں سب سے زیادہ سخت سمجھا جاتا ہے۔ یہ عمل بہت زیادہ مرکزی اور منظم ہے بنیادی طور پر ریاست اپنے مرکزی آئی ای سی پی ایس اتصالات اور ڈی یوکے ذریعے وہ یو آر ایل اور ڈی این ایس فلٹرنگ اور ڈی پی آئی پروسیسز کا ایک مجموعہ استعمال کرتے ہیں تاکہ وی او آئی پی سروسز کے ساتھ وسیع پیمانے پر مواد تک رسائی کو روکا جا سکے۔ یہ نظام اس بات پر سخت کنٹرول کو نافذ کرنے کے لیے بنایا گیا ہے کہ صارف آن لائن کس چیز تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ انٹرنیٹ متحدہ عرب امارات کے ثقافتی، مذہبی، سیاسی اور تجارتی معیارات کے مطابق ہے۔
پاکستان میں انٹرنیٹ کے صارف کی بنیاد کو دیکھتے ہوئے، پاکستان میں مواد فلٹرنگ کے نظام کو نافذ کرنے کا پیمانہ متحدہ عرب امارات کے نظام سے کافی مختلف ہوگا۔ اگرچہ کچھ ساختی مماثلتیں ہوسکتی ہیں،اِس وقت ملک کے پاس صرف دو بین الاقوامی گیٹ ویز پی ٹی سی ایل اور ٹرانس ورلڈ ہیں اور اس کا انحصار مٹھی بھر سب میرین کیبلز پر ہے۔ یہ کیبلز کبھی کبھار خرابیوں کا شکار ہو جاتی ہیں، اور جب یہ متاثر ہوتی ہیں تو پاکستان ہمیشہ خاص طور پر سخت متاثر ہوتا نظر آیا ہے۔