خواتین کے شناختی کارڈ پر والد کے نام کیلئے لاہور ہائیکورٹ کا قواعد میں ترمیم کا حکم

Lahore High Court's order to amend rules for father's name on women's identity card
 لاہور ہائی کورٹ نے خواتین کے قومی شناختی کارڈ پر والد کا نام برقرار رکھنے کیلئے امیگریشن ڈیپارٹمنٹ قواعد میں ترمیم کا حکم دے دیا،جسٹس عاصم حفیظ نے یہ حکم مہر بانو لنگڑیال کی جانب سے دائر درخواست پر سنایا، درخواست میں کہا گیا تھا کہ ایک شادی شدہ خاتون کو اپنی شناختی دستاویزات پر اپنے والد کا نام رکھنے کا حق ہے۔

عدالت کا محکمہ امیگریشن اور پاسپورٹ کو ہدایت دی ہے کہ وہ خواتین کو کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ پر اپنے والد کا نام رکھنے کی اجازت دینے والے قوانین میں تین ماہ میں ترمیم مکمل کرے۔خیال رہے کہ سندھ ہائی کورٹ نے شہری محمد سلیم کا قومی شناختی کارڈ بلاک کرنے کے خلاف درخواست پر نادرا کو دستاویزات کا جائزہ لینے کا حکم دیاتھا۔

سندھ ہائی کورٹ میں شہری محمد سلیم کا قومی شناختی کارڈ بلاک کرنے کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی تھی۔چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ نے شہری کا قومی شناختی کارڈ بلاک کرنے پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ جس کا دل چاہتا ہے اس کا شناختی کارڈ بلاک کردیتے ہیں۔ان کو پاکستان کا ساتھ دینے پر سزا دی جارہی ہے۔چیف جسٹس عقیل احمد عباسی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھاکہ حقوق نہیں دینے تو سب کو پانی والے جہاز میں بٹھا کر ایک ساتھ سمندر میں پھینک کر آجا۔

ثمینہ ایڈووکیٹ وکیل نادرا نے موقف اختیار کرتے ہوئے بتایاتھا کہ شہری سلیم نے 1991 میں مینول قومی شناختی کارڈ بنوایا تھا۔درخواست گزار کا شک کی بنیاد پر شناختی کارڈ بلاک کیا گیا تھا۔اگر ان کے پاس 1971 سے پہلے کی دستاویزی ثبوت ہیں تو نادرا جانچ پڑتال کے بعد شناختی کارڈ تجدید کرسکتا ہے۔وکیل درخواست گزار نے موقف اختیار کرتے ہوئے بتایا کہ محمد سلیم کے پاس 1969 کا پاسپورٹ موجود ہے وہ پاکستانی ہیں بنگالی نہیں ہیں۔
پاکستانی شہری کا قومی شناختی کارڈ بلاک کرکے حقوق سلب کیے گئے۔عدالت نے نادرا کو دستاویزات کا جائزہ لینے کا حکم دیتے ہوئے 13 جون کو پیش رفت رپورٹ طلب کرلی تھی۔




اشتہار


اشتہار