8فروری کے الیکشن کے بعد ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں ،پاکستان مسلم لیگ اور پاکستان تحریک انصاف اپنی اپنی جگہ گہری سیاسی کشمکش کا شکار ہیں ۔تحریک انصاف کے رہنما مختلف معاملات پر مختلف بیانات دے کر کنفیوژن کا شکار ہیں جبکہ ن لیگ کے رہنما بھی اہم حکومتی اور پارٹی معاملات پر بیانات دے رہے ہیں بلکہ بعض اوقات وہ ایک دوسرے کے دعووں کی تردید بھی کر رہےہیں۔
پروگرام’10تک‘کے میزبان ریحان طارق نے کہا ہے کہ تحریک انصاف کی طر ح ن لیگ بھی کنفیوذ اور کئی چینلنجز کا سامنا کر رہی ہے ۔جس میں پارٹی کو کوئی واضع بیانیہ دینا سب سے بڑا چیلنج ہے۔لیکن اس دوران ابتک کی سب سے بڑی خبر اسحاق ڈار کا ڈپٹی وزیر اعظم بننا ہے۔ان کو ڈپٹی وزیر اعظم بنانے کی خبر اس وقت سامنے آئی جب ایک نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا جس میں انہیں ڈپٹی وزیر اعظم بنانے کا بتایاگیا ۔
نوٹیفکیشن کے مطابق اسحاق ڈار کی بطور ڈپٹی وزیر اعظم تقرری فوری طور پر ہوگی۔یہ تقرری اس قدر جلدی اور اس وقت کی گئی جب خود اسحاق ڈار بھی ملک میں موجود نہیں تھے اور جن کی منظوری سےیہ تقرری کی گئی یعنی وزیر اعظم شہباز شریف، وہ بھی سعودی عرب میں تھے ۔ یہ تقرری کیونکہ کی گئی ۔کیا اس تقرری سے پہلے کسی اتحادی سے مشاورت کی گئی ۔
یہ صرف رسمی عہدوں ہوگا یا اسحاق ڈار نواز شریف کے دور کی طرح ڈیفیکٹو پرائم منسٹر ہونگے ؟یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات ابھی آنا باقی ہیں ۔ اور یہاں سوال تو یہ بھی ہے کیا یہ تقرری نواز شریف کی دوبارہ پارٹی صدارت سنبھالنے کی قرارداد منظور ی کے بعد ان کی مشاورت سے کی گئی ؟ مزید دیکھیے اس ویڈیو میں