پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافے کے پیشِ نظر حکومت نے ملک بھر میں دو اور تین پہیوں والی الیکٹرک گاڑیوں کے آپشن کو اپنانے کی سمت بڑھنا شروع کردیا ہے۔حال ہی میں انجینئرنگ ڈیویلپمنٹ بورڈ نے الیکٹرک وہیکل پالیسی کے تحت 34 مینوفیکچررز کو لائسنس دیے ہیں۔ سسٹینیبل ڈیویلپمنٹ پالیسی انسٹیٹیوٹ کے تحت ایک ویبنار میں انجینیرنگ ڈیویلپمنٹ بورڈ کے سینیر عہدیدار عاصم ایاز نے بتایا کہ الیکٹرک وہیکلز میں سب سے بڑا چیلنج بیٹریوں کی چارجنگ اور لاگت کا ہے۔
متعلقہ وزارت نے تجویز پیش کی ہے کہ ہر پیٹرول پمپ پر الیکٹرک وہیکلز کے بیٹری ری چارج کے انتظامات کیے جائیں۔دیوان موٹرز بی ایم ڈبلیو کے احمد سجیل نے بتایا کہ گاڑیاں بنانے والے جاپانی ادارے الیکٹرک گاڑیوں کے حوالے سے ہچکچارہے تھے تاہم عالمی سطح پر ان گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی مقبولیت نے انہیں مزاحمت ترک کرنے پر مجبور کردیا۔
بنیادی ڈھانچے کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے احمد سجیل نے مزید کہا کہ پاکستان میں سِلیکا اور دیگر خام مال وافر مقدار میں موجود ہونے کی صورت میں مقامی مینوفیکچررز کے لیے پنپنے کی گنجائش ہے۔دنیا بھر میں الیکترک گاڑیوں کو اپنانے کا رجحان بہت حد تک پیٹرولیم مصنوعات کے بڑھتے ہوئے نرخوں اور گاربن کے اخراج سے نمٹنے کی ایک کوشش بھی ہے۔
اس تبدیلی کو کامیاب بنانے کے لیے ایک طرف تو الیکٹرک گاڑیوں کی قیمتیں معقول ہونی چاہئیں اور دوسری طرف بھرپور قوت والا چارجنگ انفرا اسٹرکچر بھی یقینی بنایا جانا چاہیے۔ماہِ رواں کے اوائل میں پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز نے سُود سے پاک قرضوں والی الیکٹرک بائیک اسکیم کے تحت 20 ہزار الیکٹرک اور پیٹرول ٹو وھیلرز بالخصوص طلبہ کو فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ان میں سے ایک ہزار الیکٹرک بائیک ہوں گی۔
طلبہ کی آسانی کے لیے حکومتِ پنجاب نے بینک آف پنجاب سے اشتراکِ عمل کیا ہے۔ الیکٹرک بائیک کے لیے ماہانہ قسط 10 ہزار جبکہ عام بائیک کے لیے 5 ہزار روپے مقرر کی گئی ہے۔