کیوں کر رہی ہیں لڑکیاں ’’شادی سے انکار‘‘

Why are girls doing "refusal of marriage"?

اسلامی نقطہء نظر سے اگر معاشرہ میں بڑھتی بے حیائی ‘بد تہذیبی ‘جنسی بے راہ روی کی واردات اور دیگر غیر اخلاقی جرائم کی بات کی جائے تو ان کے اسباب کا ایک بڑا حصہ صنف نازک کی بے احتیاطیوں کے گرد گردش کرتا ہے ‘ خاص کر ان کا آج  شادی سے انکار اور حسن  و زینت کی نمائش کا رول کافی اہم  ہے  اس لئے کہ شادی سے انکار کرنے کے  بعد  انہیں اپنی نفسانی خواہشات کو  پورا  کر نے کی ضرورت محسوس ہوتی  ہے۔

  اس لئے  یہ لڑکیاں معاشقت اورغیروں سے سناشائی  کی راہ  ہموار کرتیں ہیں جو جنسیت اورشہوانی کی حدود میں داخل ہو کر معاشرہ کو تعفن زدہ  بنا رہا ہے اسکی وجہ سے آج  نت نئی  بیماریاں بھی جنم لے رہی  ہیں ۔ ’’شادی‘‘ نوع انسانی کی نسل کی بقا ء کے لئے ایک اہم ذریعہ ہے ۔ انہیں امور کو مد نظر رکھ کر اسلام نے مرد اور عورت دونوں کو شادی رچانے کا حکم دے رکھا ہے اور اسلام کی یہی روایت اسکی نمایاں تہذیبی علامت کے طور پر بھی متعارف ہے ۔

ارشاد باری تعالی ہے : ترجمہ ’’ وہی ہے جس نے تمہیں ایک جا ن سے پیدا کیا اور اس میں اس کا جوڑا بنایا کہ اس سے چین پائے ‘‘ (سورۃ الأعراف‘ آیۃ 189،ترجمہ کنزالایمان) اور دوسر ی جگہ ارشاد فرمایا: ترجمہ ’’ اور اللہ نے تمہیں بنایا مٹی سے پھر پانی کی بوند سے پھر تمہیں کیا جوڑے جوڑے ‘‘ (سورة الفاطر‘ آیۃ ۱۱‘ ترجمہ کنزالایمان) ۔ 

حضور اکرم ﷺ کا فرمان عالی شان ہے کہ ترجمہ ’’نکاح میری سنت میں سے ہے جس نے اس سے منہ موڑا وہ ہم میں سے نہیں ‘‘ (بخاری شریف) اور دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہوئے کہاکہ ’’ اے جوانوں تم میں سے جو گھر بسانے کی طاقت رکھتا ہو وہ نکاح کرلے کیونکہ یہ نظر کو جھکاتا ہے اور شرمگاہ کو محفوظ رکھتا ہے اور جو اس کی طاقت نہ رکھتاہو وہ روزے رکھے کیونکہ اس سے خواہش نفس مرتی ہے‘‘ ۔

 (بخاری‘مسلم ‘ترمذی ‘مشکوۃ المصابیح) ایسی بہت ساری آیات کریمہ اور احادیث مبارکہ ہیں جن سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ انسانی معاشرہ کی تشکیل کے لئے شادی بہت ضروری ہے کیونکہ شادی کا مقصد دو جانوں کو ایک قالب کرنا ہے ‘ دو خاندانوں میں یگانگت اور محبت پیدا کرنا ہے ۔ اس سلسلہ میں حسب و نسب ‘ عزت ووسعت ‘اخلاق و آداب اور جمال و تقوی میں باہمی توازن کا لحاظ ضروری ہے ۔

عورت کا ایک روپ بیوی کی صورت میں ہے ۔ اسلام نے اس میدان میں بھی عورتوں پر احسان عظیم کیا ہے ۔ ورنہ رومن قانون میں شوہر کو حق ہوتا تھا کہ اگر وہ بیوی سے کسی حال میں ناراض ہوجائے تو اسے قتل کر دے ۔ یہودی مذہب میں بھی عورت ایک نجس چیز ہے ‘اور اس سے وہ اسکے حیض و نفاس کے ایام میں اتنا دور ہو جاتے ہیں کہ اس کا کھانا پینا الگ اور اسکو معاشرے سے ہی کاٹ دیا جاتا ہے ۔

 اس طرح نصرانی لوگ وہ کبھی کہتے ہیں کہ عورت تو برائیوں کا ایک مجسمہ ہے ۔ ابتدائے آفرینش سے ہی لیکر اب تک دنیاکے تمام مذاہب میں عورت سے کنارہ کشی کو تقدس ‘ پاکیزگی اور پارسائی کا معیار سمجھا جاتا رہاہے جسکی جیتی جاگتی مثال عیسائی مذہب میں پادری ‘ یہودی میں ملنگ اور ہندووَں میں سنت اور سادھو کی زندگی ہیں ۔ رہبانیت ‘ ترک دنیا کو اب بھی خدا رسی کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے ۔ 

عیسائی مردوں اور عورتوں میں تنہائی ‘ خلوت اور گوشہ نشینی کو مذہبی طور پر مقدس تسلیم کیا گیا ہے اتنا ہی نہیں بلکہ عیسائی مذہب کے پادری (جو مرد ہو تے ہیں )اور ننوں (جو عورت ہوتی ہیں )کی پوری زندگی شادی سے دوری ‘ تنہائی اور خلوت کی عملی مثال ہے ۔  ہندو مذہب کے سادھووَں اور سنتوں میں تجرد کی زندگی کو روحانیت اورمقدس کی بنیاد کہا جاتا ہے ۔  یہی حال یہودیوں کا بھی ہے یہودی مذہب میں ملنگ بن کر رہنا پارسائی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔

 اور یہ محض اسی بنیاد پر ہیکہ عورت صرف اور صرف لذت اور لطف اندوزی کا سب سے بہترین اور مرغو ب ذریعہ ہے اس لئے اسے خلاف تقوی تصور کر کے تجرد کی زندگی کو دین داری تسلیم کر لیا گیاہے ۔اسلام نے تجرد ‘ سنیاسی اور رہبانیت کی اس زندگی کو انسانی فطرت کے خلاف قرار دیا ہے اورمرد کے لئے عورت کو زندگی کا لازمی جز بتلایا ہے ۔ جیساکہ پیچھے کی عبارت میں بتایا گیا ہے ۔ یہ قدرت کا بہت عظیم اور نایاب نظام ہے جو دونوں کی باہمی تعاون کی بنا پر چلتا ہے۔

 چل رہا ہے اور چلتا رہیگا۔ لیکن آج کی لڑکیوں کا شادی سے منہ موڑنا اور اسے قید تصور کرنا جلد ہی کوئی نئی پریشانی کے ظہور ہونے کا اعلان کر رہا  ہے ۔نکاحی عورت سے جنسی لذت کا حصول انسانی فطرت کا تقاضہ اور تقوی وروحانیت کے عین مطابق ہے ۔ عورت کا کمال یہ ہیکہ وہ کسی کی بیوی بن کر رہے ۔

 چنانچہ اسلام نے عورتوں پر یہ بہت بڑا احسان کیا ہے کہ اسے اس دنیائے فانی میں بے سہارا یا زندہ دفن ہونے کے لئے نہیں چھوڑا بلکہ ’’شادی‘‘کا سسٹم رائج کر کے اسکی زندگی کے تمام لوازمات جیسے مکان‘ لباس ‘خوراک اور سب سے بڑھ کر اسے ڈھیر سارا پیار دینے والا‘ لطف دینے اور لطف اندوز ہونے والا‘مزہ دینے اور لینے والا‘ دکھ سکھ آپس میں بانٹنے والا‘ برے وقت اور اچھے وقت میں کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا رہنے والاشوہر عطا کرتے ہوئے اسے ربۃ البیت یعنی گھر کی مالکن بنایا ہے ۔

اور میاں بیوی کے حقوق ایک دوسرے پر یکساں مقرر کئے ہیں جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے ترجمہ ’’ اور عورتوں کا حق مرد پر ایسا ہی ہے جیسا عورتوں پر ہے دستور کے مطابق‘‘ ۔ (سورۃ البقرۃ228آیۃ ‘ ترجمہ کنزالایمان(آج مغربی جیسی غلیظ اور گندی تہذیب کی دلداداہ بہت سی لڑکیاں تعلیم ‘ ملازمت اور آزادی کے بہانے شادی سے انکار کر رہی ہیں ۔ وہ عورت کی حقیقی جذبے سے عاری ہے ‘ انہیں ربۃ البیت کا تاج پسند نہیں ’وہ شمع محفل بن کر اپنا جسم نیم عریاں کر کے نسوانیت کی توہین کر رہی ہیں ۔

 آج فلم‘ البم ویڈیو‘سیرئیل اور ناول کے ذریعہ لڑکیوں کو یہ ترغیب دی جا رہی ہے کہ وہ شادی نہ کریں کیونکہ شادی ایک بندھن ہے ‘ ایک عذاب ہے ‘ ایک پریشانی ہے ‘ ایک بیماری لاعلاج جو ایک بار لگ جائے تو روح کو نکال کر چھوڑتی ہے ۔ اور انہیں یہ پیغام دیا جارہا  ہیکہ وہ شادی کے بندھن میں بندھے بغیر ایک مرد سے تعلقات قائم کریں اور من بھر جانے پر کسی اور کو اپنے جسم سے کھلواڑکرنے کا موقع فراہم کریں ۔  میں نے جب اس موضوع پر قلم اٹھایا تو میرے ایک رفیق و شفیق دوست نے پنجابی ویڈیو دکھلاکر کہا کہ اسے مثال کے طور پر پیش کرو ۔

 اس ویڈیو میں عاشق اپنی معشوقہ سے پوچھتا ہے ’’ ڈارلنگ ہم شادی کب کر رہے ہیں؟‘‘ جسکا جواب دیتے ہوئے لڑکی کہتی ہے ’’ میں شادی کرنا نہیں چاہتی ہمارے درمیان یونہی چلتا رہے ‘‘ پھر کچھ دنوں بعد بازار میں وہ عاشق اپنی معشوقہ کو کسی اجنبی کے بانہوں میں دیکھ کر بوکھلا جاتا ہے اور اسی بوکھلاہٹ اور غصے میں وہ عاشق اجنبی آدمی کو زور دار تھپڑ رسید کردیتا ہے جسکا جواب دیتے ہوئے وہ لڑکی  (معشوقہ)اسے ایک تھپڑ لگا دیتی ہے اور کہتی ہے ’’ ایک دو بار کیا ساتھ میں سولیا تم سمجھنے لگے میں تم سے پیار کرتی ہوں ‘ میرا من اب تم سے بھرگیا ہے اس لئے میں نے اپنے لئے اب دوسرا ساتھی ڈھونڈ لیا ہے ‘یہاں سے دفع ہو جاوَ‘‘ ۔

 ایسی ہی ذہنیت کی وجہ سے لاکھوں کروڑوں بچے اپنی ماں کی ان ہی لاپرواہیوں اور اپنی نفسانی خواہشات کی آگ بجھانے کی ہوس میں یتیم ہوکر در بدر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں ‘ اسی وجہ سے کنواری لڑکیاں شادی کے بغیر ماں بننے کا شرف حاصل کر رہی ہیں ۔  دو چار سال بوائے فرینڈ کے ساتھ میاں بیوی کی طرح رہتی ہیں اور شادی نہیں ہوتی ‘ پوچھنے پر جواب ملتا ہے ہم ایک دوسرے کو سمجھ رہے ہیں ۔

 اس ویڈیو سے آپ کو بخوبی اندازہ ہوگیا ہوگا کہ آج کے یہ نام نہاد ڈائریکٹرس(Directors)‘پروڈیوسر اور سب سے بڑھ کر بے حیا اور بے شرم اداکار(Actor) اور اداکارہ (Actress) جو ایسی بیہودہ ایکٹینگ کرنے کے لئے راضی ہوجاتے ہیں پیسہ بٹورنے‘ شہرت کمانے کے چکر میں معاشرے کو تباہى و بربادی کے کنویں میں ڈھکیل رہے ہیں ۔ ہندوستانی سنیما کی یہ ایک چھوٹی مگر آنکھو ں دیکھی ویڈیو کی کہانی ہے ۔

 مگر یوروپی حضرات ایسی فلموں کو جس میں بے حیائی اور فحاشی سے بھرے مناظر کو پکچرائز کیا گیا ہو اسے ہی ایوارڈ (Award) سے نوازتے ہیں تاکہ یہ نوجوان اور دلکش لڑکیاں انكى چنگل میں پھنسی رہىں اور ہم جب تک چاہىں جیسے چاہىں انہیں استعمال کرتے رہیں ۔ آج کی لڑکیاں یہ نہیں سمجھتى ہىں بلکہ روشنی(Light) اور کیمرہ (Camera) سے سجی اس فلمی دنیا کے سیلاب میں بہتی چلی جاتی ہىں اور ہوش اس وقت آتا ہے جب سب کچھ لٹ چکا ہوتا ہے۔

 کیونکہ جوانی کی خاص عمر تک ان لڑکیوں کو استعمال کیا جاتا ہے اور جب عمر کی زیادتی کی وجہ سے خوبصورتی ماند پڑجاتی ہے انہیں کوئی پوچھتا تک نہیں چھوڑدیا جاتا ہے بالآخر ایک مشہور ہستی اپنی ہی ذات میں گمنام ہوجاتی ہے جس کی جیتی جاگتی مثال بالی ووڈ (Bollywood)کے صف اول کی اداکارہ میناکماری ہے جو مرنے کے بعد دو دن تک ایک کمرے میں بند رہى ‘جیا خان اور تمل ناڈو کی سلک سمیتا نے بدنام ہوجانے کی وجہ سے خود کشی کر کے یہ پیغام دے دیا کہ اس فلمی دنیا میں پیسہ توہے مگر پیار نہیں ہے ‘اگر پیار ہے تو اس میں وفائی نہیں ہے ۔ 

آج کے نادان لڑکے لڑکیوں کو کیا پتہ کہ روشنیوں ‘قہقہوں اورہنسی سے بھری اس دنیا کے پیچھے آنسووَں کا ایک سیلاب ہے جو کسی کو نظر نہیں آتا ۔ نظر اسی کو آتا ہے جو اس دنیا میں جاتاہے ۔مذہب کی تعلیمات کے مطابق عورت کا رول ماڈل یہ تھا کہ و ہ شادی کر کے گھر کو سنبھالے اوربچوں کی تربیت کرے ۔ موجودہ زمانہ میں عورتوں نے یہ رول ماڈل بنالیا کے وہ باہر کی زندگی میں نکلیں اور ہر شعبہ میں بالکل مردوں کے دوش بدوش ہوکر کام کریں لیکن ان خواتین کو بڑھاپے (Old Age) کی عمر میں جلد ہی یہ احساس ہو گیا کہ پرانہ رول ماڈل ہی ایک کامیاب زندگی کے لئے سب سے بہترین اورمجرب نسخہ تھا ۔ 

اللہ تعالی نے سب سے پہلے آدم علیہ السلام (مردوں میں )کو پیدا فرمایا پھر انکی پسلی سے عورت یعنی حضرت حواء رضی اللہ عنہا کو پیدا کر کے مرد اور عورت کے تعلق کا ایک نظام(System) مقرر کیا ۔  وہ نظام یہ ہیکہ دونوں ایک خاص عمر کو پہونچ کر نکاح (Marriage)کرلیں ۔  پھر مرد باہر کی دنیا یعنی کسب ومعاش میں سرگرداں رہے جبکہ عورت گھر میں بیٹھ کر بچوں کی پرورش اور گھر کی دیکھ بھال جانفشانی کے ساتھ کرے۔ اس طرح دونوں مل کر ایک خاندان بنائیں اور اس طرح نسل چلائی جائے ۔ 

مگر آج کی لڑکیوں نے ’’ آزادی نسواں ‘‘ (Women's Freedom) کا پر فریب نعرہ کا سہارا لیتے ہوئے ایک مرد اور عورت کے ملاپ کو دودوست کے ہاتھ ملانے سے بھی زیادہ بے ضرر قرار دے دیا جس کے نتیجے میں آج عالم کے اکثرو بیشتر ممالک میں بے شمار مہلک بیماریا ں جنم لے رہی ہیں جنکے علاج کا اب تک کوئی سراغ نہیں مل پا رہا ہے ۔ ’’ایڈز‘‘ (Aids) نامی بیماری اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جو آزادانہ جنسی تعلقات قائم کرنے والوں کے لئے قدرت کی ایک بے آواز لاٹھی کے مانند ہے جو عذاب بن کر ان پر برس رہی ہے اور ہمیں پتہ بھی نہیں چل رہاہے ۔

ارئین ! نکاح دو اجنبی مرد اور عورت کے ایک جان اور دو قالب بننے کا آسان اور پاکیزہ طریقہ ہے لیکن محض دو اجنبیوں کا باہمی تعلق کا وسیلہ نہیں کہ جب چاہا کىا ‘ جب چاہا ختم کردیا ‘جب چاہا پھر جوڑ لیا بلکہ ایک ٹھوس پاکیزہ معاہدہ ہے اور عبادت جس کے لئے اسلام میں دو گواہوں کی گواہی شرط ہے ۔ نکاح کے ذریعہ معاشرہ میں ایک صالح اور پاکیزہ معاشر ہ کی تعمیر و ترقی میں نسلی اضافہ ہوتا ہے ۔ 

لیکن بغیر نکاح کا جنسی تعلق ہر مذہب ‘ہر سماج ‘ہر معاشرہ اور ہر سوسايٹی(Society) کی نظر میں غیر اخلاقی ‘غیر انسانی اور ساری زندگی زنا کرنے کو سنگین جرم قرار دیا گیا ہے ۔ہر گھر کے ذمہ دار شخص کو چاہئے کے وہ اسکے تمام نقصاندہ پہلووَں پر اطمینان و سکون کے ساتھ غور و خوض کریں ۔ اور یہ سونچیں کیوں ہماری لڑکیاں شادی سے انکار کر رہی ہیں ؟۔ کیا وہ تعلیم اور ملازمت کی جھوٹی تسلی دے کر حرام کام تو نہیں کر رہی ؟

کیا وہ ہم سے بے حیائی اور فحاشی کے لئے وقت مانگ رہی ہے؟کیا وہ عشق لڑا رہی ہے ؟ یا پھر تعلیم اور ملازمت کا بہانہ کر کے اپنی عصمت و عزت نیلام کر رہی ہے؟کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ اپنی عصمت لٹوارہی ہو ؟ ۔ اس لئے تمام اہل ذمہ شخص کو چاہئے کہ وہ اپنی نوجوان بیوی اور بہن وغیرہ جیسی لڑکیوں اور عورتوں پر کڑی سے کڑی نگاہ رکھیں۔

 اور یہ نہ سوچیں کے میری بیٹی ‘بہن یا بیوی یہ سب حرکتیں نہیں کر ستکیں کیونکہ یہ دنیا ایسی ہے جس میں ایک کتے کی وفاداری پر تو یقین کیا جا سکتاہے مگر انسان کی وفادار ی پر بالکل نہیں کیونکہ انسان وہ ہے جو وہی پلیٹ میں چھید کرتا ہے جس میں وہ کھاتا ہے اس لئے ذرا غورکریں اور دھیان بھی دیں ۔ اللہ ہمارے تمام اہل خانہ کو برائی سے بچنے اور برائی سے بچانے کی تو فیق عطا فرمائے ۔ (آمین(






اشتہار


اشتہار