اقوام متحدہ نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ طالبان حکومت غیر شادی شدہ خواتین کی ملازمت اور سفری سہولتوں تک رسائی محدود بنا رہی ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کوئی سرپرست ساتھ نہ ہو تو خواتین کے لیے سفر اور صحتِ عامہ کی سہولتوں تک رسائی بھی مشکل بنائی جارہی ہے۔
برطانوی اخبار گارجین میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اخلاقی درستی کی وزارت نے ایک خاتون سے کہا کہ اگر وہ اپنی نوکری برقرار رکھنا چاہتی ہیں تو شادی کریں۔
2021 میں دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد طالبان نے پبلک لائف کے بہت سے شعبوں تک خواتین کی رسائی اور نقل و حرکت محدود کردی ہے۔ بچیوں کو چھٹی جماعت سے زیادہ پڑھنے کی اجازت نہیں۔ ویسے ابتدا میں انہوں نے نرم خوئی اختیار کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
طالبان نے بیوٹی پارلر بند کردیے ہیں اور لباس سے متعلق قواعد پر سختی سے عمل کرایا جارہا ہے۔ جو خواتین ان قواعد پر عمل نہیں کرتیں انہیں گرفتار کرلیا جاتا ہے۔مئی 2022 میں طالبان نے خواتین کے لباس سے متعلق سخت تر قواعد جاری کیے جن کے تحت خواتین کے لیے سر سے پاؤں تک کا برقع پہننا لازم قرار دیا گیا جس میں سے صرف آنکھیں ڈھکی ہوئی نہ ہوں۔
افغانستان میں اقوام متحدہ کے اسسٹنس مشن نے گزشتہ برس اکتوبر تا دسمبر کی صورتِ حال سے متعلق رپورٹ میں کہا کہ محرم کے بغیر گھر سے نکلنے والی خواتین کو بیشتر معاملات میں کریک ڈاؤن کا سامنا ہے۔گزشتہ اکتوبر میں تین ہیلتھ ورکرز کو محرم کے بغیر کام پر جانے پر حراست میں لے لیا گیا تھا۔ اہل خانہ کی طرف سے ایسی حرکت کا اعادہ نہ کیے جانے کی ضمانت پر انہیں رہا کیا گیا۔
پکتیا صوبے میں گزشتہ دسمبر سے خواتین کو محرم کے بغیر صحتِ عامہ کے مراکز تک رسائی تک روک دیا گیا ہے۔طالبان کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کی رپورٹ کا بڑا حصہ غلط فہمیوں پر مشتمل ہے۔ انہوں نے اقوام متحدہ کے معاون مشن پر اسلامی شریعت کو نظر انداز کرنے اور اس پر تنقید کرنے کا الزام بھی عائد کیا۔