’اتوار بازار میں نمکو فروخت کی، ایک وقت ایسا آیا کہ کچن میں سونا پڑا‘

"I sold Namko in the Sunday market, there was a time when I had to sleep in the kitchen"

پاکستان کرکٹ ٹیم کے ہردلعزیز فاسٹ بالر حارث رؤف کی زندگی کے اتار چڑھاؤ کے بارے میں حال ہی میں معروف کرکٹ ویب سائٹ ای ایس پی این کرک انفو نے ایک دستاویزی فلم بنائی۔ 

امام الحق کی ساتھی کھلاڑیوں کے ہمراہ چائے پیتے تصویر سوشل میڈیا پر وائرل

ویلڈر والد کے بیٹے میٹرک میں اپنی پڑھائی کا خرچ پورا کرنے کیلئے نمکو بھی فروخت کرتے رہے، ٹیپ بال اس لیے کھیلتے تھے کہ یونیورسٹی کی فیس بھر سکیں۔

حارث رؤف نے مداحوں کو بتایا کہ میں نے بہت چھوٹی عمر5 سے 6 سال سے کرکٹ کھیلنی شروع کردی تھی میں چھت ، گلی ہر جگہ کھیلتا اور اسکے لئے مجھے اکثر ایک گلی سے دوسری گلی کا بھی رخ کرنا پڑتا تھا جب ہمیں وہاں کھیلنے سے منع کیا جاتا تو ہم جگہ بدل دیتے۔

’اتوار بازار میں نمکو فروخت کی، ایک وقت ایسا آیا کہ کچن میں سونا پڑا‘

کرکٹر کے مطابق، ’مجھے اکثر بالنگ کرانے بھی نہیں دیتے تھے کہتے تھے یہ ’بٹا بال‘ کراتا ہے اسے بالنگ نہیں آتی۔حارث نے بتایا کہ کرکٹ کی خاطر اپنے والد سے بہت ماربھی کھائی ہے جنہیں میرا کرکٹ کھیلنا پسند نہیں تھا۔

 یہی وجہ تھی کہ کرکٹ کھیلنے کے کپڑے بھی اپنے دوست کے گھررکھے ہوئے تھے، بہانے سے گھر سے نکلتا اور پھر گیراج میں کپڑے بدل کر کرکٹ گراؤنڈ کھیلنے چلا جاتا اور واپسی پہ دوبارہ تبدیل کر کے گھر آجاتا اس پر بھی والد کو پتہ چل جاتا اور پھر مار پڑتی۔

حارث کے والد چاہتے تھے وہ اپنی پڑھائی پر دھیان دیں اس لیے انہیں کرکٹ کھیلنے کی اجازت نہیں تھی۔حارث اپنے 7 بہن بھائیوں میں سب سے بڑے ہیں اور انکے والد ویلڈر کا کام کرکے بہ مشکل اپنے بچوں کو پالتے تھے۔

کھلاڑی نے راولپنڈی میں اپنے آبائی گھرکا ذکر کرتے پوئے بتایا کہ ان کے تین چچا اوروالد سب ایک ساتھ رہتے تھے اور جب سارے چچاؤں کی شادیاں ہو گئیں تو ایک وقت ایسا بھی آیا کہ انہیں کچن میں بھی سونا پڑا۔

حارث نے بتایا کہ مجھے کرکٹ کے بارے میں اکثرمعلومات نہیں تھیں انڈر16 اور انڈر 19 کیا ہوتی ہیں یہ بھی نہیں معلوم تھا؟ میں نے زندگی میں پہلی بار ہارڈ بال تب دیکھی جب ڈائمنڈ گراؤنڈ میں کھیلنا شروع کیا۔ وہاں فرسٹ کلاس کرکٹر آتے تھے کرکٹ کھیلنے۔

انھوں نے کہا میں ٹیپ بال سے کھیلتا تھا اوراسے کھیلنے کی وجہ یہ تھی کہ میں اپنی یونیورسٹی کی پڑھائی کا خرچہ اس سے نکالتا تھا کیونکہ والد کے وسائل ایسے نہیں تھے کہ وہ فیس دیتے ۔

انھوں نےکہا جب میں میٹرک میں تھا تو میں ہراتوار بازار جاکرنمکو بیچتا تھا تاکہ فیس ادا کر سکوں ۔ٹیپ بال سے میں یونیورسٹی کی 6 سمسٹر کی فیس نکال لیتا تھا۔ پاکستان میں ٹیپ بال کرکٹرز مہینے کے دو ڈھائی لاکھ روپے آسانی سے کمالیتے ہیں۔ میری والدہ کا خواب تھا کہ ہمارا گھر ہو۔ میں ان کو گھر کے لیے پیسے دیا کرتا تھا۔

حارث نے بتایا کہ پہلے ٹرائل کے لیئے جب ہم پہینچے تو دروازہ بند ہوچکا تھا تو میں نے اور دوسرے ساتھیوں نے مل کر دروازے کا لاک توڑا اور گراؤند میں داخل ہوئے۔انہوں نے اس دور کی یادیں تازہ کرتے ہوئے مزید کہا اب میرے پاس ایک گھر اور گاڑی ہے۔ 

جب میں نے گاڑی خریدی تو میرے والد رونے لگے اور کہا کہ ان کی اس گاڑی میں بیٹھنے کی بھی حیثیت نہیں ہے۔کھلاڑی نے مزید کہاکہ ، ’اگرمیرا خاندان خوش ہے تو میں خوش ہوں، یہ میرے لیے بہت فخر کی بات ہے۔






 

اشتہار


اشتہار