غزہ میں شہید الجزیرہ کے بہادر صحافی انس الشریف کا آخری پیغام، پڑھنے والی ہر آنکھ اشکبار

غزہ میں شہید الجزیرہ کے بہادر صحافی انس الشریف کا آخری پیغام، پڑھنے والی ہر آنکھ اشکبار
غزہ میں اسرائیل کے ہاتھوں شہید ہونے والے الجزیرہ کے بہادر صحافی انس الشریف کے آخری پیغام نے پڑھنے والوں کے دلوں کا ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اتوار کو غزہ کے مشرقی حصے میں الشفا اسپتال کے قریب ایک خیمے پر اسرائیلی حملے میں انس الشریف اپنے تین ساتھی صحافیوں اور ایک اسسٹنٹ کے ہمراہ شہید ہوئے تھے۔

LOADING...

 وہ محاذِ جنگ سے سچ دکھانے اور اپنی قوم کی آواز دنیا تک پہنچانے کے لیے جانے جاتے تھے۔اپنی شہادت سے چند لمحے قبل انس نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر ایک پیغام چھوڑا تھا، جو انہوں نے وصیت کے طور پر لکھا تھا، تاکہ اگر وہ قتل کر دیے جائیں تو دنیا تک پہنچایا جا سکے۔ ان کے الفاظ پڑھ کر ہر آنکھ اشکبار ہو گئی۔

غزہ میں شہید الجزیرہ کے بہادر صحافی انس الشریف کا آخری پیغام، پڑھنے والی ہر آنکھ اشکبار

انس الشریف نے لکھا:

’’یہ میری وصیت اور میرا آخری پیغام ہے۔ اگر یہ الفاظ آپ تک پہنچیں تو جان لیں کہ اسرائیل مجھے قتل کرنے اور میری آواز خاموش کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ سب سے پہلے آپ پر اللہ کی طرف سے سلامتی، رحمت اور برکت ہو۔ اللہ جانتا ہے کہ میں نے اپنی قوم کے لیے اپنی ہر کوشش کی اور پوری طاقت لگا دی۔ میری امید تھی کہ اللہ میری زندگی بڑھا دے تاکہ میں اپنے گھر اور پیاروں کے ساتھ اپنے اصل شہر عشقلان (المجدل) لوٹ سکوں، مگر اللہ کی مرضی مقدم رہی۔ میں نے درد کے ہر رنگ کو جھیلا، دکھ اور نقصان کو بارہا چکھا، مگر کبھی سچ کو مسخ کیے بغیر بیان کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔ میں فلسطین کو، اس کے معصوم بچوں کو، اس کی مظلوم عورتوں کو جنہیں سکون اور حفاظت کا لمحہ نصیب نہ ہوا آپ کے سپرد کرتا ہوں … میں آپ کے سپرد کرتا ہوں اپنی بیٹی شام کو، اپنے بیٹے صلاح کو، اپنی ماں اور اپنی شریکِ حیات کو… اگر میں مروں تو ثابت قدم مروں گا، اللہ سے دعا ہے کہ وہ مجھے شہداء میں شامل کرے اور میرا خون میری قوم کی آزادی کا چراغ بنے۔ غزہ کو نہ بھولنا… اور مجھے اپنی دعا میں یاد رکھنا۔‘‘

اسرائیلی فوج نے انس الشریف کو نشانہ بنانے کی تصدیق کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ وہ حماس کے ایک سیل کی سربراہی کر رہے تھے۔انس الشریف کی شہادت پر الجزیرہ نے بیان جاری کرتے ہوئے انہیں ”غزہ کے بہادر ترین صحافیوں میں سے ایک“ قرار دیا اور اس حملے کو ”قبضے سے پہلے سچ بولنے والی آوازوں کو خاموش کرنے کی مایوس کن کوشش“ قرار دیا۔انس الشریف کے پیغام کو پڑھنے والے ایک سوشل میڈیا صارف نے لکھا، ’میں مسلمان نہیں ہوں، پھر بھی یہ پڑھتے ہوئے میرے ہاتھ کانپ رہے ہیں‘۔

ایک اور صارف نے لکھا، ’جنت انتظار کر رہی ہے‘۔

ایک صارف نے لکھا، ’انس شریف کا قتل اس کے کیمرے کو خاموش کرانے کے لیے نہیں تھا، بلکہ اس آئینے کو توڑنے کے لیے تھا جو وہ اسرائیل کے جرائم کے سامنے رکھے ہوئے تھا‘۔

انس کے ساتھ شہید ہونے والوں میں محمد قرَیقہ، ابراہیم زاہر اور محمد نوفل شامل تھے۔ غزہ کے ملبے تلے گونجتی انس کی یہ وصیت آج بھی دنیا سے یہی پکار کر رہی ہے: ”غزہ کو مت بھولو“۔



 

حوالہ

اشتہار


اشتہار