
متحدہ عرب امارات کے حالیہ دورے کے موقع پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اعزاز میں قصر الوطن (صدارتی محل) میں ایک خصوصی استقبالیہ تقریب منعقد کی گئی۔
LOADING...
اس موقع پر خلیجی ثقافت کے ایک منفرد پہلو کا مظاہرہ کیا گیا، اور وہ ہے عرب دنیا کا مشہور رقص 'العیالہ'، جسے اکثر 'خلیجی ڈانس' بھی کہا جاتا ہے۔یہ رقص نہ صرف خلیجی ثقافت کا نمائندہ ہے بلکہ اس کی جڑیں عرب قبائلی تاریخ میں بہت گہرائی تک پیوست ہیں۔
العیالہ کیا ہے؟
'العیالہ (Al-Ayyala)' ایک روایتی خلیجی رقص ہے جو عرب دنیا، خصوصاً متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، قطر، بحرین اور عمان میں خصوصی تقاریب میں پیش کیا جاتا ہےاس رقص کو مرد اور عورت دونوں الگ الگ انداز میں پیش کرتے ہیں، تاہم 'العیالہ' یا 'خلیجی ڈانس' کی اصطلاح زیادہ تر خواتین کے مخصوص انداز میں رقص کے لیے استعمال ہوتی ہے جس میں لمبے سیاہ بالوں کو گھما کر لہرانے کا فن شامل ہوتا ہے۔
خلیجی خواتین اس رقص میں اپنے لمبے، کھلے اور خوشبو دار بالوں کو دھن کے ساتھ ہم آہنگ کرتے ہوئے ہوا میں گھما کر لہراتی ہیں۔یہ حرکت نہ صرف دیکھنے میں مسحورکن معلوم ہوتی ہے بلکہ عورت کے حسن، وقار اور اعتماد کی علامت بھی مانی جاتی ہے۔عرب دنیا میں لمبے بال عورت کی نسوانیت کی علامت سمجھے جاتے ہیں، اور یہ رقص اسی پہلو کو فنکارانہ انداز میں ظاہر کرتا ہے۔
رقص کے دوران خواتین ایک روایتی لباس 'ثوب النشل (Thobe Nashal)' پہنتی ہیں، جو ایک لمبا، ڈھیلا، اور رنگین کڑھائی والا لباس ہوتا ہے، یہ لباس حرکت کرتے وقت خوبصورت انداز میں لہراتا ہے۔یہ رقص زیادہ تر جسم کے اوپری حصے کی حرکت پر مرکوز ہوتا ہے، جیسے کہ کندھوں، گردن، اور سر کی حرکت، 'بیلی ڈانس' کی طرح یہ رقص پیروں یا کولہوں کی حرکت پر مبنی نہیں ہوتا۔خواتین یہ رقص عموماً گروپ میں کرتی ہیں، ایک دائرہ بنا کر، سب مل کر ایک جیسے انداز میں کھل زلفیں لہرا کی رقص کرتی ہیں۔
مردوں کا العیالہ ڈانس؛ جنگجو روایات کی علامت
مردوں کا 'العیالہ ڈانس' ایک قطار کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے جس میں شرکت کنندگان چھڑیوں یا تلواروں کو ہاتھ میں تھام کر ہم آہنگی سے مخصوص حرکات کرتے ہیں۔ان کے پیچھے دف اور طبل بجانے والے ہوتے ہیں، جو ایک جنگی ماحول کو اجاگر کرتے ہیں۔یہ رقص دراصل قدیم عرب قبائلی دور کی جنگی تیاریاں، فتح کی خوشی اور قبائلی اتحاد کا مظہر ہوتا ہے۔
تاریخی پس منظر
'العیالہ' کی جڑیں صحرائی عرب قبائل کی زندگی میں پیوست ہیں، جب قبیلے جنگ جیت کر واپس لوٹتے تھے، تو ان کی فتح کی خوشی میں یہ رقص کیا جاتا تھا۔اس رقص کے ذریعے قبیلے کے افراد اپنی بہادری، اتحاد، اور ثقافتی تشخص کا جشن مناتے تھے۔وقت کے ساتھ ساتھ یہ رسم روایتی رقص میں تبدیل ہو گئی، جو آج قومی تقریبات، شادیوں اور ثقافتی میلوں کا حصہ بن چکی ہے۔سال 2014 میں یونیسکو نے 'العیالہ رقص' کو 'ثقافتی ورثہ' (Intangible Cultural Heritage) کے طور پر تسلیم کیا، جس سے اس کی بین الاقوامی سطح پر پہچان میں اضافہ ہوا۔آج بھی خلیجی ممالک اپنی قومی تقریبات میں العیالہ کو فخر سے پیش کرتے ہیں، تاکہ نوجوان نسل اپنی جڑوں سے جڑی رہے۔