کہا جاتا ہے کہ گوادرپاکستان کے اقتصادی مستقبل کی کنجی ہے،گوادر میں کئی صنعتی زون،حکومتی سرپرستی کے دعوے،دن دگنی رات چوگنی ترقی کے خواب دکھائے گئے لیکن پچھلے منگل کو شروع ہونے والی بارش جو دو دن جاری رہی اس کا پانی آج بھی گلیوں میں اور سڑکوں پر ابھی تک ٹھاٹھیں مار رہا ہے، لوگ کہیں آنے جانے کے لیے کشتیاں استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔
منگل کو ہونے والی بارش کے بعد گلیوں میں چار سے 6فٹ تک پانی کھڑا ہو گیا تھا جو اب بھی موجود ہے۔29 گھنٹے سے زائد جاری رہنے والی بارش سے حالات اس قدر خراب ہوئے کہ اس شہر کو آفت زدہ قرار دینا پڑا۔مسلسل بارشوں سے گھروں میں پانی جمع ہوگیا اورمتاثرین ' بچے، خواتین اور بزرگ بھوکے، پیاس سے بلبلانے لگے۔
نو منتخب وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ بلوچستان نے اپنے انتخاب کے بعد پہلا اعلان یہی کیا کہ وہ حلف اٹھانے کے بعد اپنا پہلا دورہ گوادر کا ہی کرینگے۔اب وہ گوادر میں پہنچے،نقصانات کا جائزہ لیا لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ ان کے دوروں سے کیا وہاں کے مکینوں کی مشکلات میں کمی واقع ہو گی؟تو اس کا جواب ہے نہیں ۔
البتہ شاید ہمارے وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کی تشہیر میں کچھ اضافہ ممکن ہو لیکن گوادر کے مکینوں کی مشکلات میں کمی اس وقت ہو گی جب صحیح معنوں میں ان کی فلاح و بہوبود میں کام ہوں گے۔حقیقت یہ ہے کہ بارش تو قدرتی آفت سہی لیکن پی ڈی ایم کی حکومت میں پلاننگ کمیشن نے بھی اس مسئلے پر بہت کم توجہ دی جس کے سبب نکاسی آب کا مناسب بندوبست نہیں تھا۔اور اسی وجہ سے آج گوادر کے یہ حالات ہیں۔
کیا یہ سوچا جا سکتا ہے کہ ایسا شہر جس کو آپ پاکستان کا مستقبل قرار دے رہے ہیں ۔پوری دنیا میں گوادر کی تشہیر کی جا رہی ہے ۔بڑے بڑے صنعتی زونز بنانے کے دعوے کیے جا رہے ہیں لیکن حقیقت میں پوری دنیا یہ دیکھ رہی ہے کہ وہاں معمول سے زیادہ بارش ہونے کی صورت میں نکاسی آب جیسے بنیادی مسئلے کا کوئی حل موجود نہیں ۔ سڑکوں پر کھڑا 4.4 فٹ پانی نقل و حمل کو مکمل طور پر بند کر رہا ہے۔
ایسے میں کوئی ملک یا سرمایہ کار اپنا سرمایہ ان صنعتی زونز میں کیوں لگائے گا؟سوال یہ ہے ایسی بنیادی سہولیات کی عدم موجودگی میں یہ شہر پاکستان تو کیا مقامی لوگوں کے مستقبل میں کوئی تبدیلی لا سکے گا؟ گوادر اور پاکستان کے مغربی علاقوں میں اتنی بارش متوقع تھی اور اس کی پیش گوئی بھی کی گئی تھی،کیونکہ یہ سسٹم بنا ہی مغرب میں تھا، پیش گوئی کی گئی تھی کہ بلوچستان کے بالائی علاقوں میں برف باری جبکہ نچلے علاقوں میں طوفانی بارش ہو سکتی ہے۔
قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارے سمیت متعلقہ اداروں کو ہدایات بھی جاری کی گئی تھیں لیکن کوئی بھی ٹس سے مس ہونے کو تیار نہیں ہوا۔ اب جب سب کچھ بہہ چکا ہے۔غریب اپنی جمع پونجی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں تو نمائشی دورے ہورہے ہیں ۔تشہیر پر قومی خزانہ لٹایا جارہا ہے۔راشن بٹے گا جس کے بعد پھر سے عدم توجہی کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو جائیگا۔