جنوبی پنجاب میں کانٹے کا جوڑ،کس کی کیا پوزیشن ہے؟

What is the position of the thorn joint in South Punjab?

ملک بھرمیں عام انتخابات کیلئے تیاریاں مکمل ،انتخابی مہم عروج پر پہنچ گئی، عام انتخابات میں تمام سیاسی جماعتوں کے لئے جنوبی پنجاب اہم محاذ بن گیا، تمام سیاسی جماعتیں جنوبی پنجاب میں اکثریت کی خواہاں ہیں۔کیونکہ گزشتہ تینوں حکومتیں بنانے میں جنوبی پنجاب نے اہم کردار ادا کیا تھا۔جنوبی پنجاب میں  ٹاکرے آزاد امیدواروں اور سیاسی جماعتوں کے درمیان ہونے جارہے ہیں ۔کس کی کیا پوزیشن ہے؟ صورتحال یہ ہے۔

ضلع ملتان

  ملتان جنوبی پنجاب کا سب اہم ضلع ہے،ملتان کو علاقے کے دارالحکومت کی حیثیت حاصل ہے،یہاں قومی اسمبلی کے 6 حلقے ہیں ،سب سے اہم این اے 148 ہے جس میں سابق وزیر اعظم ، پیپلز پارٹی کے یوسف رضا گیلانی، ن لیگ کے احمد حسین ڈیہڑ ،پی ٹی آئی کے بیرسٹر تیمور ملک میں مقابلہ ہوگا۔ اس حلقے سے یوسف رضا گیلانی اور سکندر حیات بوسن جیتتے رہے مگر 2013 کے الیکشن میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر احمد حسین ڈیہڑ نے یہ نشست جیتی تھی۔

سکندر بوسن بھی احمد حسین ڈیہڑ کا ساتھ دے رہے ہیں اس لیے اس حلقے میں کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔ ملتان کا دوسرا اہم حلقہ این اے 149ہے جہاں آئی پی پی کے سربراہ جہانگیر خان ترین کا مقابلہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار  عامر ڈوگر سے ہے۔ اس بار اس حلقہ میں دلچسپ مقابلہ دیکھا جارہا ہے یہاں سے 2018 میں پی ٹی آئی کی ٹکٹ پر منتخب ایم این اے ملک عامر ڈوگر دوبارہ تحریک انصاف کے امیدوار ہیں۔

اس حلقے سے ن لیگ اور استحکام پاکستان کے متفقہ امیدوار جہانگیر ترین پہلی بار لڑ رہے ہیں۔ سینیئر سیاست دان جاوید ہاشمی جو خود بھی اس حلقہ سے امیدوار تھے ،انہوں نے الیکشن سے دستبرداری اختیار کرتے ہوئے عامر ڈوگرکی حمایت کا اعلان کردیا ہے۔ ملتان کا ایک اور اہم حلقہ این اے 150 ہے جس میں  جاوید اختر انصاری  ن لیگ کے امیدوار ہیں جبکہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار  زین قریشی ہیں ،دونوں میں کانٹے دار مقابلہ ہے۔

اسی طرح این اے 151میں ن لیگ کے عبدالغفار ڈوگر  کا پیپلز پارٹی کے علی موسیٰ گیلانی سے کانٹے کا مقابلہ ہے۔این اے 152 میں ن لیگ کے جاوید علی شاہ کا پیپلزپارٹی کے عبدالقادر گیلانی سے جوڑ پڑے گا ۔تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار عمران شوکت بھی سرپرائز دے سکتے ہیں ۔ ملتان کا آخری حلقہ این اے 153ہے جہاں مسلم لیگ ن کے رانا قاسم نون کا مقابلہ آزاد امیدوار ذوالقرنین بخاری سے ہے۔دونوں سخت مقابلہ متوقع ہے۔

ضلع وہاڑی

ضلع وہاڑی قومی اسمبلی کے 4 حلقوں پر مشتمل ہے۔وہاڑی کے حلقہ 156 جو بورے تحصیل کے علاقوں پر مشتمل ہے۔یہاں  پی ٹی آئی نے عائشہ نذیر جٹ کو ٹکٹ دیا ہے ان کے مد مقابل ن لیگ کے چوہدری نذیر احمد ہوں گے اس حلقے میں بھی دونوں امیدواروں کے سابقہ ریکارڈ کے مطابق سخت مقابلے کا بتایا جارہا ہے۔ارشاد احمد آرائیں بھی اسی حلقہ سے ایم این اے کے آزاد امیدوار ہیں،ارائیں برادری سے 2 امیدوار ہونے کا فائدہ پی ٹی آئی کی حمایت یافتہ عائشہ نذیر جٹ اٹھا سکتی ہیں۔

 این اے 157 میں ن لیگ کے سید ساجد شاہ مہدی کا مقابلہ آزاد امیدوار سبین صفدر اور ٹی ایل پی کے علی لغاری سے ہے،این اے 158 میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ طاہر اقبال چوہدری کا ن لیگ کی تہمینہ دولتانہ سے کانٹے دار مقابلہ ہے لیکن یہاں سابق ایم این اے طاہر اقبال چوہدری کی کامیابی کے امکانات زیادہ ہیں ۔این اے 159 میں ن لیگ کے امیدوار سعید خان منہیس کا مقابلہ پی ٹی آئی کے آزاد امیدوار جہانزیب خان کھچی اور پیپلزپارٹی کے محمود حیات خان ٹوچی سے ہے۔

ضلع خانیوال

  ضلع خانیوال قومی اسمبلی کے 4 حلقوں پر مشتمل  ہے۔سب سے اہم حلقہ  این اے 144 ہے جو کبیروالا کے شہری اور دیہی علاقوں پر مشتمل ہے،یہاں آزاد امیدواروں کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہے،اس وقت پہلے نمبر پر بیرسٹر رضا حیات ہراج،دوسرے نمبر پر سید عابد امام شاہ موجود ہیں جبکہ تیسرے نمبر پر مخدوم سید مختیار حسین شاہ  ہیں جو مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔

اس حلقے کی خاص بات یہ ہے کہ جو آزاد امیدوار جیتتا ہے وہ اقتدار پارٹی کو جوائن کرلیتا ہے۔ خانیوال کا دوسرا اہم حلقہ این اے 145  ہے یہاں سے سابق ایم این اے محمد خان ڈاہا ،مسلم لیگ ن  کے امیدوار ہیں جن کا مقابلہ آزاد امیدوار حامد یار ہراج ،پیپلز پارٹی کے رانا عبدالرحمن،پی ٹی آئی کے  عابد محمود گھگہ سے ہے ۔این اے 146 میں مسلم لیگ ن کے امیدوار پیر اسلم بودلہ اور آزاد امیدوار پیر ظہور حسین قریشی کے درمیان کانٹے دار مقابلہ ہے۔

این اے 147 میں ن لیگ کے افتخار نذیر چوہدری او ر آئی پی پی کے ایاز خان نیازی میں مقابلہ ہے جبکہ آزاد امیدوار نوید حمید بھی اچھی پوزیشن میں ہیں ۔  یاد رہے کہ 2008ء میں پیپلزپارٹی نے جنوبی پنجاب سے 24 ممبران سے ساتھ وفاق میں حکومت بنائی تھی جبکہ 2013ء میں ن لیگ نے جنوبی پنجاب سے 29 ممبران کی حمایت حاصل کرکے وفاق میں حکومت بنائی تھی اور اسی طرح ‏2018ء میں تحریک انصاف نے جنوبی پنجاب سے 27 ممبران کی حمایت سے وفاق میں حکومت بنائی تھی۔






اشتہار


اشتہار