مہنگی بجلی ،زیادہ بلوں کیخلاف عوام کا احتجاج ،حکومت نے عوام کو کوئی ریلیف نہیں دیا بلکہ بجلی چوروں کے گرد شکنجہ کسنے کیلئے آرڈیننس لانے کا فیصلہ کرلیا ۔ نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق نگراں حکومت نے کی بجلی چوری روکنے کے لیے ایک ہفتے میں کابینہ اجلاس میں آرڈیننس لانے کا فیصلہ کیا ہے۔
آرڈیننس کے مسودے میں بجلی کے بلوں کی عدم ادائیگی کو بھی بجلی چوری تصور کیا جائے گا۔ حکومت ملک بھر میں انسداد چوری بجلی فورس قائم کریگی جس سے نہ صرف بجلی چوری پر قابو پانے میں مدد ملے گی بلکہ بجلی کے بلوں کی وصولی کو بڑھانے میں بھی مدد ملے گی۔ بجلی چوری اور عدم ادائیگی کو سنگین جرم تصور کیا جائے گا۔
حریم شاہ ویڈیو کیسے لیک کرتی ہے؟بھانڈا پھوٹ گیا۔
حکومت نے لوگوں کی جانب سے اپنی چھتوں پر نصب سولر پینلز کی نیٹ میٹرنگ کے اقدام کا بھی جائزہ لینا شروع کر دیا ہے جیساکہ اس کی وجہ سے کپیسٹی چارجز کی ادائیگی میں اضافہ ہوا ہے جو مہنگے بلوں کا بنیادی ذریعہ ہے۔ حکومت نے مالی سال 2023-24 میں صارفین سے 3.29 ٹریلین روپے وصول کرنے ہیں۔
جس میں سے صارفین کو کپیسٹی چارجز کی مد میں 2 کھرب روپے ادا کرنے ہوں گے۔ ملک میں 41000 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ 1000 میگاواٹ شمسی توانائی ملک بھر میں لوگ اپنی چھتوں پر تیار کر رہے ہیں اور اپنی اضافی شمسی توانائی حکومت کو فروخت کر رہے ہیں۔
1000 میگاواٹ کے سولر پینلز کی وجہ سے سسٹم کی بجلی فروخت نہیں ہو رہی اور اس کے نتیجے میں بجلی کے کیپسٹی چارجز میں اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے بجلی کے بلوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اس بات کا فیصلہ اتوار کو نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی زیر صدارت ہونے والے اعلیٰ سطحی اجلاس میں کیا گیا۔
پاور ڈویژن اور ڈسکوز حکام نے گردشی قرض، کپیسٹی چارجز کی 2 کھرب روپے کی ادائیگی پر پریزنٹیشن دی۔ پاور ڈویژن کے سیکرٹری نے اجلاس کے شرکاء کو بتایا کہ چوری اور وصولی (ریکوری) کے نقصانات 550 ارب روپے تک پہنچ گئے ہیں۔
جہاں تک مہنگائی کے شکار عوام کو بجلی کے مہنگے بلوں میں ریلیف دینے کا تعلق ہے تو پاور ڈویژن اور وزارت خزانہ کے اعلیٰ افسران، اس حقیقت کو جانتے ہوئے کہ حکومت اپنے 9 ارب ڈالرز کے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ قرض کے تحت آئی ایم ایف کے سخت مالی نظم و ضبط میں ہے، عوام کو ریلیف دینے کیلئے مل کر 48 گھنٹوں میں معاملےکا حل نکالیں گے۔
فنانس ڈویژن بجلی کے بلوں پر ٹیکس میں کسی قسم کے ریلیف کے بارے میں آئی ایم ایف کو اعتماد میں لے گاتاہم سابق وزیراعظم شاہد خان عباسی کا کہنا ہے کہ حکومت کو فوری ریلیف کے طور پر بجلی کے بلوں میں سے 35 فیصد کٹوتی کرنی چاہیے اور آنے والے موسم سرما کے پانچ مہینوں میں کٹوتی کی گئی رقم صارفین تک پہنچائیں اور عوام کو ریلیف دینے کا یہی واحد نسخہ ہے۔
انہوں نے دلیل دی کہ موسم سرما میں بجلی کے بل کم ہوجاتے ہیں کیونکہ سردیوں کے موسم میں بجلی کی کھپت صرف 10 تا 12 کے میگاواٹ ہو جاتی ہے جیسا کہ زیادہ سے زیادہ بجلی استعمال کرنے والے ایئر کنڈیشنر اور پنکھے بند رہتے ہیں۔