کراچی کے نوجوان انجینئرز اور آئی ٹی کے ماہرین نے پاکستان میں جانوروں کا ڈیجیٹل پاسپورٹ متعارف کرا دیا۔
قربانی کے جانوروں کے علاوہ دیگر قیمتی جانوروں کی ڈیجیٹل ڈیٹا بیس میں مصنوعی ذہانت کے ذریعے رجسٹریشن کروانا ممکن ہوگئی، گم ہونے والے جانوروں کی تلاش، انشورنس کے کلیم میں جانوروں کی شناخت کے مسائل سے نجات ملے گی۔
ذی الحج کا چاندکب نظر آئے گا؟اہم خبر آ گئی
ذی الحج کا چاندکب نظر آئے گا؟اہم خبر آ گئی
نجی ٹی وی چینل کی رپورٹ کے مطابق استعمال میں آسان موبائل ایپلی کیشن اس عیدِ قرباں پر ایپ اسٹور پر دستیاب ہوگی۔ کراچی کے نوجوان انجینئرز اور آئی ٹی ماہرین عمید احمد اور محمد حسان خان نے مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی استعمال کرکے جانوروں کی ڈیجیٹل آئی ڈی پر مشتمل ڈیٹا بیس کا نظام تیار کرلیا ہے۔
یہ سسٹم جانوروں کی ناک میں چھپے ہوئے مخصوص پیٹرن کی بنیاد پر ان کو ڈیجیٹل شناخت دیتا ہے جسے جانوروں کا بائیومیٹرک بھی کہا جاسکتا ہے کیونکہ انسانوں کے انگلیوں کے نشانات کی طرح ہر جانور کی ناک کے مسام بھی مخصوص ہوتے ہیں اور دنیا کے ہر جانور کی ناک کے پیٹرن ایک دوسرے سے الگ ہوتے ہیں۔
عمید اور حسان کا تیار کردہ سسٹم بھی اس فطری قانون کے تحت کام کرتا ہے۔ جانوروں کی واضح تصاویر لی جاتی ہیں اور ان میں چھپے پیٹرن کو ایک ڈیجیٹل شناخت دے کر سسٹم کی ڈیٹا بیس میں محفوظ کرلیا جاتا ہے اس ڈیجیٹل شناخت کے ساتھ ہی مالک کے کوائف، جانور کی عمر، صحت کی تفصیل بھی درج کی جاسکتی ہے۔
عمید احمد نے بتایا کہ انہوں نے اس نظام کی آزمائش کراچی کی مویشی منڈیوں میں کی ہے جس کے 100فیصد درست نتائج ملے ہیں اب تک 4700 گائے بیلوں کی ڈیجیٹل شناخت سسٹم میں درج کی جاچکی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ دنیا میں یہ سلوشن یورپ اور امریکا کے دو تین ملکوں میں ہی استعمال ہورہا ہے جو زیادہ تر مہنگے پالتو جانوروں کی ڈیجیٹل شناخت کے لیے استعمال ہوتا ہے جن میں بیش قیمت گھوڑے اور کتے شامل ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں عید قرباں پر جانور چوری یا گم ہوجاتے ہیں اور ملنے پر اس کی ملکیت کو ثابت کرنا مشکل ہوتا ہے کیونکہ بہت سے جانور دیکھنے میں بالکل ایک جیسے ہوتے ہیں اس مشکل کو ہماری ایپلی کیشن آسان کردے گی اور جانوروں کے چہرے کی اسکیننگ کرنے پر ڈیٹا بیس ڈیجیٹل شناخت کی بنیاد پر گم یا چوری شدہ جانور کو تلاش کرنے میں مدد دے گی۔
دنیا میں یہ سلوشن زیادہ تر جانوروں کی انشورنس کے لیے استعمال ہوتاہے تاکہ جانوروں کو شناخت دی جاسکے۔ جانوروں کی ڈیجیٹل شناخت کے لیے زیادہ تر جانوروں کے کان میں ایک آر ایف آئی ڈی ٹیگ لگایا جاتا ہے لیکن یہ ٹیگ تبدیل ہوسکتا ہے یا چوری کیا جاسکتا ہے اس لیے جانوروں کے ڈیجیٹل پاسپورٹ کی تیکنالوجی آر ایف آئی ڈی ٹیگز سے زیادہ کارگر اور محفوظ ہوگی جس سے پاکستان میں لائیو اسٹاک سیکٹر اور ڈیری فارمرز بھی استفادہ کرسکتے ہیں۔
اس نظام کے ذریعے حکومت بھی مویشیوں کی نقل و حمل کی نگرانی کرسکتی ہے کہ کسی شہر میں کہاں سے کتنے جانور لائے گئے اور انہیں کن منڈیوں میں لے جاکر فروخت کیا گیا اس کے علاوہ جانوروں کی صحت کے کوائف بھی سینٹرلائز ڈیٹا بیس میں محفوظ کی جاسکتی ہے
جس سے یہ معلوم کیا جاسکتا ہے کہ متعلقہ جانور کی صحت کا ریکارڈ کیسا ہے اور اس جانور سے انسانوں یا دیگر مویشیوں کو کوئی خطرات لاحق ہیں یا نہیں اس طرح یہ ایپلی کیشن منہ اور کھر کی بیماری، کانگو وائرس کے علاوہ جانوروں سے پھیلنے والی دیگر مہلک بیماریوں کی روک تھام میں بھی مدد دے سکتی ہے۔
محمد حسان خان نے بتایا کہ اس سسٹم کے تحت عام صارف ایک جانور رجسٹرڈ کرسکتے ہیں ایک سے زائد جانور رجسٹر کرنے کے لے سبسکرپشن چارجز ادا کرنا ہوں گے، جو بہت کم اور قابل برداشت ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی سرپرستی اور تعاون حاصل ہوتو اس نظام سے جانوروں کی چوری کے واقعات پر قابو پایا جاسکتا ہے اور پولیس کو تفتیش میں آسانی ہوسکتی ہے۔