ڈنکی اور ہماری نوجوان نسل

Dinky and our young generation


لفظ ’’ڈنکی‘‘ سے شاید بہت سارے لوگ واقف نہ ہوں۔ پنجاب کے علاقے گجرات، گوجرانوالہ ،منڈی بہاؤالدین ، سیالکوٹ اور اطراف کے اضلاع کے لوگ اس لفط اور اسکے مطلب کو بخوبی جانتے ہوں گے۔ بلوچستان، ایران ، ترکی کے راستے پیدل یا کنٹینروں میں بند ہو کر یونان جانے کو’’ڈنکی‘‘ کہتے ہیں۔ اس کی تلخ حقیقت سے وہی لوگ واقف ہیں جو آدھے راستے سے واپس آ جاتے ہیں یا بہت ہی زیادہ خوش قسمتی سے یونان پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔


پنجاب میں نوجوان  10 سے 12 لاکھ یا اس سے بھی زائد  روپے انسانی اسمگلروں کو دے کر اپنی موت کا سودا کرنے کا سفر شروع کرتے ہیں۔ ان نوجوانوں کو پنجاب سے کراچی یا رحیم یار خان، صادق آباد لایا جاتا ہے۔ یہاں سے ان کے اذیت ناک سفر کی کہانی شروع ہو جاتی ہے۔ بلوچستان میں داخلے کے ساتھ انہیں بند کنٹینروں، ٹرکوں میں سامان کے نیچے یا بسوں ، ان کے سائیڈ کے خانوں میں بند کر کے پاک ایران بارڈر پر پہنچایا جاتا ہے۔ بارڈر پر ایجنٹوں کے کارندے ان کی جامع تلاشی لیتے ہیں اور کاغذ نام کی ایک بھی چیز ان کے پاس نہیں رہنے دیتے۔ 

کرنسی، شناختی کارڈ یا اس کی فوٹو کاپی سمیت کوئی بھی چیز ان کے پاس نہیں رہنے دی جاتی ہے۔ یہی لوگ انہیں بارڈر پار کراتے ہیں جس کے بعد پیدل یا چھوٹی گاڑیوں کے ذریعے ایران سے ترکی کے بارڈر پر پہنچایا جاتا ہے۔بھوک، پیاس تو کبھی ایرانی فورسز کی نظر میں آنے پر  بیشتر لوگ اس سفر میں مارے جاتے ہیں۔ خوش قسمتی سے جو لوگ بچ جائیں ، 

وہ ترکی  پہنچ کر بند کنٹینروں کے ذریعے اگلے بارڈر پر پہنچائے جاتے ہیں۔ 


یہاں سے ایک اور اذیت ناک کہانی شروع ہوتی ہے۔ بچے ہوئے لوگوں کو ترکی کے علاقے ازمیر سے سمندر میں چھوٹی کشتیوں کے ذریعے آگے جانا ہوتا ہے۔ چھوٹی کشتیوں پر بڑی تعداد میں لوگ سوار کرائے جاتے ہیں جس کی وجہ سے اکثر کشتیاں  ڈوب جاتی ہیں۔ اس جگہ کے سمندر کو ایجین کے نام سے پکارا جاتا ہے جہاں پانی نقطہ انجماد سے نیچے ہوتا ہے۔ خون جما دینے والے پانی میں اکثر کئی کلومیٹر کا فاصلہ تیر کر بھی پار کرنا پڑتا ہے۔


 دونوں ملکوں کی فوجوں میں سے کسی کی نظر میں آئے تو گولیوں کا نشانہ بن سکتے ہیں۔ اگر پانی اور گولی ، دونوں سے بچ گئے اور یونان کے کسی سرحدی قصبے میں پہنچنے میں کامیاب ہو گئے 

تو آگے پھر کنٹینر یا چھوٹی گاڑیوں میں بیٹھا کر اوپر سامان لوڈ کر دیا جاتا ہے۔ اگر پھر بھی زندگی باقی رہی تو ایتھنز پہنچ پاتے ہیں۔


سانحہ تربت کے بعد آنکھیں کھولنے والی حکومت اور دوسرے ادارے اس وقت بھنگ پی کر سوئے ہوتے ہیں، جب یہ انسانی اسمگلر کھلے عام یہ کام کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ ایجنٹ لوگوں کو یورپ کے سہانے سپنے دکھاتے ہیں اور ،10 لاکھ سے پندرہ لاکھ روپے لے کر لوگوں کو موت کے منہ میں دھکیل دیتے ہیں۔ 


یہ لوگ ایران، ترکی یا یونان کے بارڈر پر گولیوں یا بھوک پیاس سے  مارے جاتے ہیں جن کا نہ کوئی واقعہ رپورٹ ہوتا ہے نہ کوئی کارروائی ہوتی ہے۔ ان لاشوں کو کفن تک میسر نہیں آتا اور بعض اوقات ان لاشوں کو ویرانوں میں چیل ، کوے ان کی لاشیں کھا جاتے ہیں۔ وہاں سے لاشیں واپس آنے کا کوئی چانس نہیں ہوتا کیوں کہ ان لوگوں کے پاس شناخت نام کی کوئی چیز ہی موجود نہیں ہوتی۔

آپ سوچتے ہوں گے کہ لوگ کیسے اتنے خطرناک سفر کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ تو اس کے دو پہلو ہیں، 

ایک بیروزگاری  یا روزگار کے کم مواقع اور 

دوسرے کا ذمہ دار ہمارے والدین اور مجموعی معاشرہ ہے۔ 

جب نوجوان اپنے اردگرد دیکھتے ہیں ، کہ ہمارا کزن ، پڑوسی ، فلاں رشتہ دار بیرون ملک ایسے ہی ڈنکی لگا کر گیا ہے ، تو پھر ان کی ساری کی ساری کی سوچ صرف ایک نقطے پر مرکوز ہوتی ہے ، اور وہ جس طرح بھی ہو ، جیسے بھی  ، والدین کو مجبور کیا جاتا ہے ۔ مجھے یورپ بھیجا جائے ۔ 

اپنے اردگرد انسانی اسمگلروں اور دہشت گردوں  پر نظر رکھیں، ان کے بارے میں سیکیورٹی اداروں کو آگاہ کریں  اور دوسرا، زندگی میں ہر چیز کا رسک لیں مگر زندگی کا نہیں کیونکہ ڈالر، یورو، پیسے ، مکان سمیت ہر چیز دوسری بار مل سکتی ہے تاہم زندگی کبھی نہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے ۔ ڈنکی کی حوصلہ شکنی کے لئے خاص کے ان علاقوں ایک  درج ذیل اقدامات کئے جائیں 

سکول اور کالج کی سطح پر ایک موثر پروگرام شروع کیا جائے ، اور طلباء کو ڈنکی کے مضمرات اور نقصانات سے آگاہ کیا جائے ۔ اخبارات اور سوشل میڈیا کے ذریعے بھی ایک آگاہی مہم شروع کی جائے ،  کہ کیسے ہم اپنی نوجوان نسل کو اس مذموم اور نقصان دہ مہم سے بچا سکتے ہیں ۔



social media ، حوالہ

اشتہار


اشتہار