سیاست میں پیش گوئیوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے ۔اب حکومت کتنا عرصہ چلے گی؟ اِس پر بھی قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں ۔ابھی حالیہ دنوں میں منظور وسان نے پیش گوئی کی ہے کہ شہباز شریف 3 ماہ کے اندر قومی اسمبلی تحلیل کردیں گے ۔اب واقفان حال اِس کی ایک وجہ یہ قرار دے رہے ہیں کہ حکومت کے اوپر دھاندلی کرنے کا الزام ہے اور آنے والے وقتوں میں یہ دباؤ بڑھے گا۔
پروگرام’10تک ‘کے میزبان ریحان طارق نے کہا ہے کہ دوسرا اتحادی بھی وزیر اعظم کو دباؤ میں لاسکتے ہیں لیکن کہنے والے یہ کہتے ہیں کہ شہباز شریف کو طاقت ور حلقوں کی حمایت حاصل ہے اِس لیے حکومت ہر طرح سے محفوظ ہے۔ لیکن اگر ہم اُن ممکنات پر بات کریں جن کی وجہ سے حکومت کسی خطرے کا شکار ہوسکتی ہے تو اُن ممکنات میں سے ایک پیپلزپارٹی کا حکومت کا ساتھ چھوڑنا ہے ۔
اب پیپلزپارٹی اگر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کر رہی ہے اور اندر کھاتے وہ ن لیگ کے ساتھ حکومت میں پوری سہولتکاری کر رہی ہے تو پھر اِس حکومت کو کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں ہوگا ۔لیکن اگر پیپلزپارٹی جس طرح حکومت کی پالیسیوں کیخلاف کھل کر بات کر رہی ہے اوروہ واقعی ن لیگ کی پالیسیوں کیخلاف ہے تو پھر ممکن ہے وہ آئینی عہدوں تک محدود رہے اور حکومت کا باقائدہ عملی طور پر حصہ نہ بن سکے ۔
اگرپیپلزپارٹی واقعی ن لیگ کی پالیسیوں کیخلاف ہوکر پیچھے ہٹ گئی تو ن لیگ حکومت کی نیا کو پار نہیں لگا سکے گی ۔اب جیسا کہ پیپلزپارٹی نجکاری کیخلاف تھی اور ن لیگ تیزی سے نجکاری کی طرف جارہی ہے ۔اور نجکاری کرنا آئی ایم ایف کی شرائط بھی ہے اور حکومت اُس شرائط کو پورا بھی کر ہی ہے۔ دوسری جانب پیپلزپارٹی ہتک عزت کے قانون پر بھی بہت شور مچا رہی ہے ۔
کیونکہ پنجاب حکومت نے ہتکِ عزت قانون کا گزٹ نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے۔ پنجاب اسمبلی سے منظور ہونے والا ہتکِ عزت بل قانون بن گیاہے۔اب ہتک عزت کے قانون پر گورنر پنجاب سلیم حیدر کہتے ہیں کہ یہ قانون پیپلزپارٹی کو اعتماد میں لیے بغیر منظور کیا گیا۔اب پیپلزپارٹی ہتک عزت کے قانون پر سوالات اُٹھا رہی ہے ۔اور شرجیل میمن نے تو کہتے ہیں کہ اُن کے گونر نے تو بل پر دستخط بھی نہیں کیے اور ایسی ہی ملتی جلتی رائے حسن مرتضی ٰ بھی دے رہے ہیں۔
اب صحافتی تنظیمیں بھی اِس بل پر آواز اُٹھا رہی ہیں اور اِس قانون کو میڈیا کی آزادی پر قدغن قرار دے رہی ہیں ۔پیپلزپارٹی کی طرح صحافتی تنظیمیں بھی اِس بات کا گلہ کر رہی ہیں کہ ہتک عزت کے قانون پر حکومت نے کوئی مشاورت نہیں کی ۔ لیکن وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ اِس بل کا دفاع کرتے نظر آرہے ہیں اور مخالفین کو جواب دے رہے ہیں کہ یہ ہتک عزت بل سب کے لیے میرے لیے آپ کے لیے ہے۔
ہتک عزت بل لوگ یوکے جا کر کیس کرتے ہیں۔ یہاں پر کیوں نہیں کرتے کیونکہ یہاں فیصلے جلد نہیں ہوتے۔ن لیگ ہتک عزت کے قانون کا بھرپور دفاع کرتی نظر آرہی ہے ۔وہیں پر پنجاب اسمبلی کےاپوزیشن لیڈر ملک احمد بھچرہتک عزت کے قانون پر رد عمل دیتے ہوے کہتے ہیں کہ یہ قانون رات کے اندھیرے میں بنایا گیا اور پیپلزپارٹی نے بی ٹیم کا کردار ادا کیا۔یعنی اپوزیشن پیپلزپارٹی پر دوہری پالیسی پر چلنے کا الزام لگا رہی ہے اور پیپلزپارٹی بظاہر خود اِس بل کی کی مخالفت کر رہی ہے ۔مزید دیکھئے اس ویڈیو میں